قرآن کے ابواب اور تقسیم قرآن ایک بڑی کتاب ہے۔
اس کی تقسیم حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی زندگی میں فرما چکے تھے اور یہ رہنمائی کر چکے تھے کہ کس آیت کو کس سورت میں کہاں رکھنا ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی ہی میں قرآن کے بے شمار حافظ تھے اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم شعبان اور رمضان کے مہینوں میں قرآن کئی دفعہ ختم کرتے تھے جو ظاہر ہے کہ کسی ترتیب کے بغیر ممکن نہیں۔
قرآن کا اعجاز یہ ہے کہ آج تک اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکی۔ پہلی صدی ہجری کے لکھے ہوئے قرآن جو ترکی کے عجائب گھر توپ کاپی میں ہیں یا ایران کے شہر مشھد میں امام علی رضا علیہ السلام کے روضہ کے عجائب گھر میں ہیں، ان میں بعینہ یہی قرآن خطِ کوفی میں دیکھا جا سکتا ہے
جو آج جدید طباعت کے بعد ہمارے سامنے ہے۔
اسے سات منزلوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ اس کی ایک اور تقسیم سیپاروں کے حساب سے ہے۔
سیپارہ کا لفظی مطلب تیس ٹکروں کا ہے یعنی اس میں تیس سیپارے ہیں۔
ایک اور تقسیم سورتوں کی ہے۔ قرآن میں 114 سورتیں ہیں جن میں سے کچھ بڑی اور کچھ چھوٹی ہیں۔
سب سے بڑی سورت سورۃ البقرہ ہے۔
سورتوں کے اندر مضمون کو آیات کی صورت میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ قرآن میں چھ ہزار چھ سو چھیاسٹھ آیات ہیں۔
نیچے اس تقسیم کو پیش کیا گیا ہے۔
تلاوت کے لیے قرآن کو سات منازل (منزل کی جمع) میں تقسیم کیا جاتا ہے۔
اس کا فلسفہ یہ ہے کہ ایک منزل روزانہ تلاوت کرنے سے ایک ہفتہ میں قرآن مکمل ہو جاتا ہے۔
ایک ماہ میں قرآن کو مکمل تلاوت کرنے کے لیے تیس سیپاروں (جز) کی تقسیم کی گئی ہے۔ قرآن کی ایک سو چودہ سورتیں ہیں۔
ہر سورت بسم اللہ الرحمٰن الرحیم سے شروع ہوتی ہے سوائے سورۃ التوبہ کے۔
سب سے پہلی سورت سورۃ الفاتحہ ہے اور سب سے آخری سورۃ الناس ہے۔
سب سے بڑی سورت سورۃ البقرہ ہے جس کی دو سو چھیاسی آیات ہیں
اور سب سے چھوٹی سورت سورۃ الکوثر ہے
جس کی صرف تین آیات ہیں۔
بعض اوقات ایک سیپارہ (جز) کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے
جنہیں أَحْزاب کہا جاتا ہے جو حِزْب کی جمع ہے۔
ہر حِزْب کو چار أَرْباع جو رُبْع کی جمع ہے ہر سورت میں تین سے لے کر دو سو چھیاسی تک آیات ہیں۔
عموماً بڑی سورتیں شروع کے سیپاروں میں اور چھوٹی سورتیں آخری سیپارے میں ہیں۔
قرآن میں چھ ہزار سے زاید آیات ہیں۔
قرآن کی جس سورت کا بیشتر حصہ ہجرت مدینہ سے قبل نازل ہوا
وہ مکی کہلاتی ہیں اور جو ہجرت مدنیہ کے بعد نازل ہوئیں وہ مدنی کہلاتی ہیں
قرآن کا سب سے پہلا ترجمہ فارسی میں ہوا جو حضرت سلمان فارسی نے کیا تھا۔
مغربی زبانوں میں سب سے پہلے لاطینی زبان میں ترجمہ ہوا جو رابرٹ کیٹون نے 1143 عیسوی میں کیا تھا۔
قرآن کا پہلا انگریزی ترجمہ الیگزینڈر راوس نے 1649 میں کیا۔
تلاوت کے لیے قرآن کو سات منازل (منزل کی جمع) میں تقسیم کیا جاتا ہے۔
اس کا فلسفہ یہ ہے کہ ایک منزل روزانہ تلاوت کرنے سے ایک ہفتہ میں قرآن مکمل ہو جاتا ہے۔
ایک ماہ میں قرآن کو مکمل تلاوت کرنے کے لیے تیس سیپاروں (جز) کی تقسیم کی گئی ہے۔ قرآن کی ایک سو چودہ سورتیں ہیں۔
ہر سورت بسم اللہ الرحمٰن الرحیم سے شروع ہوتی ہے سوائے سورۃ التوبہ کے۔
سب سے پہلی سورت سورۃ الفاتحہ ہے اور سب سے آخری سورۃ الناس ہے۔
سب سے بڑی سورت سورۃ البقرہ ہے جس کی دو سو چھیاسی آیات ہیں
اور سب سے چھوٹی سورت سورۃ الکوثر ہے
جس کی صرف تین آیات ہیں۔
بعض اوقات ایک سیپارہ (جز) کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے
جنہیں أَحْزاب کہا جاتا ہے جو حِزْب کی جمع ہے۔
ہر حِزْب کو چار أَرْباع جو رُبْع کی جمع ہے ہر سورت میں تین سے لے کر دو سو چھیاسی تک آیات ہیں۔
عموماً بڑی سورتیں شروع کے سیپاروں میں اور چھوٹی سورتیں آخری سیپارے میں ہیں۔
قرآن میں چھ ہزار سے زاید آیات ہیں۔
قرآن کی جس سورت کا بیشتر حصہ ہجرت مدینہ سے قبل نازل ہوا
وہ مکی کہلاتی ہیں اور جو ہجرت مدنیہ کے بعد نازل ہوئیں وہ مدنی کہلاتی ہیں
قرآن کا سب سے پہلا ترجمہ فارسی میں ہوا جو حضرت سلمان فارسی نے کیا تھا۔
مغربی زبانوں میں سب سے پہلے لاطینی زبان میں ترجمہ ہوا جو رابرٹ کیٹون نے 1143 عیسوی میں کیا تھا۔
قرآن کا پہلا انگریزی ترجمہ الیگزینڈر راوس نے 1649 میں کیا۔
منزل | جز یا سیپارہ | ابتدا | منزل | جز یا سیپارہ | ابتدا | ||
---|---|---|---|---|---|---|---|
سورت نمبر | آیت نمبر | سورت نمبر | آیت نمبر | ||||
1 | 1 | 1 | 1 | 4 | 15 | 17 | 1 |
2 | 2 | 142 | 16 | 18 | 75 | ||
3 | 2 | 253 | 17 | 21 | 1 | ||
4 | 3 | 92 | 18 | 23 | 1 | ||
5 | 4 | 24 | 19 | 25 | 21 | ||
6 | 4 | 148 | 5 | 27 | 26 | ||
2 | 5 | 1 | 20 | 27 | 60 | ||
7 | 5 | 83 | 21 | 29 | 45 | ||
8 | 6 | 111 | 22 | 33 | 31 | ||
9 | 7 | 88 | 6 | 35 | 1 | ||
10 | 8 | 41 | 23 | 36 | 22 | ||
11 | 9 | 94 | 24 | 39 | 32 | ||
3 | 11 | 10 | 1 | 25 | 41 | 47 | |
12 | 11 | 6 | 26 | 46 | 2 | ||
13 | 12 | 53 | 7 | 50 | 1 | ||
14 | 15 | 2 | 27 | 51 | 31 | ||
28 | 58 | 1 | |||||
29 | 67 | 1 | |||||
30 | 78 | 2 |
مدرجہ بالا تقاسيم ميں سے سورتوں اور آيات كی تقسيم توقيفی ہے۔
يہ الله تعالٰی كے نبی نے الہامی راہنمائی ميں أپنی حيات مباركہ ميں كر دی تھی۔
اور اسی صورت ميں محفوظ ہے۔
ركوع پاروں اور منازل ميں تقسيم بعد كے لوگوں نے حفاظ، قاريوں اور عام مسلمانوں كی متعين ايام ميں ختم كرنے كے پيش نظر كی ہے۔
ركوع ميں تقسيم كے سوا دونوں تقسيميں مضمون كے بجائے مقدار كے تحت كی گئی ہيں۔
موجودہ زمانے ميں برصغير پاك و ہند كے بعض اہل علم نے نظم قرآن پر بہت كام كيا ہے
اور اس اعتبار سے بھی قرآن كو مضامين اور ترتيب كے اعتبار سے ابواب ميں تقسيم كيا ہے۔
حميد الدين فراہی، امين احسن اصلاحی اور جاويد احمد غامدی كا كام اس سلسلہ ميں بہت نماياں ہے۔
ان علما نے قرآن كی سورتوں كو سات ابواب ميں تقسيم كيا ہے۔
ان كے كام كا خلاصہ جاويد احمد غامدی كے الفاظ ميں يہ ہے:
قرآن کے اِن ساتوں ابواب میں سے ہر باب ایک یا ایک سے زیادہ مکی سورتوں سے شروع ہوتا ہے
اور ایک یا ایک سے زیادہ مدنی سورتوں پر ختم ہو جاتا ہے۔
پہلا باب فاتحہ سے شروع ہوتا اورمائدہ پر ختم ہوتا ہے۔
اِس میں فاتحہ مکی اور باقی چار مدنی ہیں۔
دوسرا باب انعام اور اعراف ،دو مکی سورتوں سے شروع ہوتا ہے اور دو مدنی سورتوں،انفال اور توبہ پر ختم ہوتا ہے۔
تیسرے باب میں یونس سے مومنون تک پہلی چودہ سورتیں مکی ہیں اور آخر میں ایک سورۂ نور ہے جو مدنی ہے۔
چوتھا باب فرقان سے شروع ہوتا ہے ،احزاب پر ختم ہوتا ہے۔
اِس میں پہلی آٹھ سورتیں مکی اور آخر میں ایک، یعنی احزاب مدنی ہے۔
پانچواں باب سبا سے شروع ہوتا ہے ،حجرات پر ختم ہوتا ہے۔
اِس میں تیرہ سورتیں مکی اور آخر میں تین مدنی ہیں۔
چھٹا باب ق سے شروع ہو کر تحریم پر ختم ہوتا ہے۔
اِس میں سات مکی اور اِس کے بعد دس مدنی ہیں۔
ساتواں باب ملک سے شروع ہو کر ناس پر ختم ہوتا ہے۔
اِس میں آخری سورتیں دو ،یعنی معوذتین مدنی اور باقی سب مکی ہیں۔
اِن میں سے ہر باب کا ایک موضوع ہے
اور اُس میں سورتیں اِسی موضوع کی رعایت سے ترتیب دی گئی ہیں۔
پہلے باب کا موضوع یہود و نصاریٰ پر اتمام حجت ،
اُن کی جگہ بنی اسمٰعیل میں سے ایک نئی امت کی تاسیس، اُس کا تزکیہ و تطہیر اور اُس کے ساتھ خدا کا آخری عہدو پیمان ہے۔
دوسرے باب میں مشرکین عرب پر اتمام حجت ،مسلمانوں کے تزکیہ و تطہیر اور خدا کی آخری دینونت کا بیان ہے۔
تیسرے، چوتھے، پانچویں اور چھٹے باب کا موضوع ایک ہی ہے اور وہ انذار و بشارت اور تزکیہ و تطہیر ہے۔
ساتویں اور آخری باب کا موضوع قریش کے سرداروں کو انذار قیامت ،اُن پر اتمام حجت،
اِس کے نتیجے میں اُنہیں عذاب کی وعید اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے سرزمین عرب میں غلبۂ حق کی بشارت ہے۔
اِسے ہم مختصر طریقے پر محض انذار و بشارت سے بھی تعبیر کر سکتے ہیں۔
يہ الله تعالٰی كے نبی نے الہامی راہنمائی ميں أپنی حيات مباركہ ميں كر دی تھی۔
اور اسی صورت ميں محفوظ ہے۔
ركوع پاروں اور منازل ميں تقسيم بعد كے لوگوں نے حفاظ، قاريوں اور عام مسلمانوں كی متعين ايام ميں ختم كرنے كے پيش نظر كی ہے۔
ركوع ميں تقسيم كے سوا دونوں تقسيميں مضمون كے بجائے مقدار كے تحت كی گئی ہيں۔
موجودہ زمانے ميں برصغير پاك و ہند كے بعض اہل علم نے نظم قرآن پر بہت كام كيا ہے
اور اس اعتبار سے بھی قرآن كو مضامين اور ترتيب كے اعتبار سے ابواب ميں تقسيم كيا ہے۔
حميد الدين فراہی، امين احسن اصلاحی اور جاويد احمد غامدی كا كام اس سلسلہ ميں بہت نماياں ہے۔
ان علما نے قرآن كی سورتوں كو سات ابواب ميں تقسيم كيا ہے۔
ان كے كام كا خلاصہ جاويد احمد غامدی كے الفاظ ميں يہ ہے:
قرآن کے اِن ساتوں ابواب میں سے ہر باب ایک یا ایک سے زیادہ مکی سورتوں سے شروع ہوتا ہے
اور ایک یا ایک سے زیادہ مدنی سورتوں پر ختم ہو جاتا ہے۔
پہلا باب فاتحہ سے شروع ہوتا اورمائدہ پر ختم ہوتا ہے۔
اِس میں فاتحہ مکی اور باقی چار مدنی ہیں۔
دوسرا باب انعام اور اعراف ،دو مکی سورتوں سے شروع ہوتا ہے اور دو مدنی سورتوں،انفال اور توبہ پر ختم ہوتا ہے۔
تیسرے باب میں یونس سے مومنون تک پہلی چودہ سورتیں مکی ہیں اور آخر میں ایک سورۂ نور ہے جو مدنی ہے۔
چوتھا باب فرقان سے شروع ہوتا ہے ،احزاب پر ختم ہوتا ہے۔
اِس میں پہلی آٹھ سورتیں مکی اور آخر میں ایک، یعنی احزاب مدنی ہے۔
پانچواں باب سبا سے شروع ہوتا ہے ،حجرات پر ختم ہوتا ہے۔
اِس میں تیرہ سورتیں مکی اور آخر میں تین مدنی ہیں۔
چھٹا باب ق سے شروع ہو کر تحریم پر ختم ہوتا ہے۔
اِس میں سات مکی اور اِس کے بعد دس مدنی ہیں۔
ساتواں باب ملک سے شروع ہو کر ناس پر ختم ہوتا ہے۔
اِس میں آخری سورتیں دو ،یعنی معوذتین مدنی اور باقی سب مکی ہیں۔
اِن میں سے ہر باب کا ایک موضوع ہے
اور اُس میں سورتیں اِسی موضوع کی رعایت سے ترتیب دی گئی ہیں۔
پہلے باب کا موضوع یہود و نصاریٰ پر اتمام حجت ،
اُن کی جگہ بنی اسمٰعیل میں سے ایک نئی امت کی تاسیس، اُس کا تزکیہ و تطہیر اور اُس کے ساتھ خدا کا آخری عہدو پیمان ہے۔
دوسرے باب میں مشرکین عرب پر اتمام حجت ،مسلمانوں کے تزکیہ و تطہیر اور خدا کی آخری دینونت کا بیان ہے۔
تیسرے، چوتھے، پانچویں اور چھٹے باب کا موضوع ایک ہی ہے اور وہ انذار و بشارت اور تزکیہ و تطہیر ہے۔
ساتویں اور آخری باب کا موضوع قریش کے سرداروں کو انذار قیامت ،اُن پر اتمام حجت،
اِس کے نتیجے میں اُنہیں عذاب کی وعید اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے سرزمین عرب میں غلبۂ حق کی بشارت ہے۔
اِسے ہم مختصر طریقے پر محض انذار و بشارت سے بھی تعبیر کر سکتے ہیں۔
Leave a Reply