منصور حلاج ۔5۔(پیدائش 858ء، وفات 26 مارچ 922ء)
مر کا ابتدائی زمانہ عراق کے شہر واسط میں گزرا۔ پھر اہواز کے ایک مقام تستر میں سہل بن عبد اللہ اور پھر بصرہ میں عمرو مکی سے تصوف میں استفادہ کیا۔ 264ھ میں بغداد آ گئے اور جنید بغدادی کے حلقۂ تلمذ میں شریک ہو گئے۔ عمر کا بڑا حصہ سیر و سیاحت میں بسر کیا بہت سے ممالک کے سفر کیے جن میں مکہ، خراسان شامل ہیں۔ وہ اتحاد ذات الہی یا ہمہ اوست کا قائل تھے اور “اناالحق” ’’میں خدا ہوں‘‘ کا نعرہ لگایا کرتے تھے۔ 297ھ/909ء میں ابن داؤد الاصفہانی کے فتوے کی بنیاد پر پہلی مرتبہ گرفتار ہوئے۔ 301ھ میں دوسری مرتبہ گرفتار ہوئے اور آٹھ سال مسلسل اسیر رہے۔ 309ھ میں مقدمے کا فیصلہ ہوا اور 18 ذیقعد کو سولی دے دی گئی۔ وفات کے بعد علماءکے ایک گروہ نے کافر و زندیق قرار دیا اور دوسرے گروہ نے جن میں رومی اور شیخ فرید الدین عطار جیسے عظیم صوفی بھی شامل تھے انھیں ولی اور شہید حق کہا۔ حلاج نے تصوف اور طریق تصوف اور اپنے مخصوص عقائد و نظریات کی شرح میں متعدد کتابیں اور رسائل قلمبند کیے جن کی تعداد 47 سے اوپر ہے۔ اس کا عقیدہ تین چیزوں پر مشتمل ہے۔ ذات الہی کا حصول ذات بشری میں حقیقت محمدیہ کا اقدام توحید ادیان بشکریہ ویکیپیڈیا
Leave a Reply