قرآن خلفائے راشدین کا عہد
خلفائے راشدین کے عہد میں جمع قرآن کے متعلق دو نقطہ نظر ہیں، پہلا نقطہ نظر اہل سنت کا ہے اور دوسرا امامیہ اہل تشیع کا۔
اہل سنت کا متفقہ نقطہ نظر یہ ہے
کہ ابو بکر صدیق کے عہد میں قرآن کو یکجا کرکے ایک مصحف میں محفوظ کیا گیا
اور عہد عثمان میں اسی مصحف کو باضابطہ نسخہ قرار دے کر بقیہ نسخوں کو نذر آتش کر دیا گیا۔
جبکہ اہل تشیع کا نقطہ نظر یہ ہے
کہ علی ابن ابی طالب نے وفات نبوی کے بعد مکمل قرآن کو ایک مصحف میں جمع کیا تھا
اور ان کی ترتیب عثمانی مصحف کی ترتیب سے مختلف تھی لیکن بایں ہمہ انہوں نے اس مصحف پر اعتراض نہیں کیا اور اپنے مرتب کردہ مصحف کو اپنے پاس محفوظ رکھا۔
اہل تشیع کا کہنا ہے کہ علی بن ابی طالب کے مصحف کے چند امتیازات تھے،
مثلاً وہ ترتیب نزولی پر تھا یعنی منسوخ آیتوں کو ناسخ آیتوں سے پہلے اور مکی سورتوں کو مدنی سورتوں سے پہلے درج کیا گیا تھا۔
اس کے حاشیے پر آیت کی مناسبت سے اہم تشریحات وغیرہ لکھی گئی تھیں
اور تفصیل کے ساتھ آیتوں کا شان نزول اور مقام نزول بھی مذکور تھا۔
چنانچہ اسی ضمن میں جعفر صادق کا قول ہے: “فرمان رسول ہے:
اگر قرآن کو لوگ اس طرح پڑھیں جس طرح نازل ہوا ہے تو کبھی اختلاف نہ ہو”۔
عہد صدیقی میں جمع قرآن کی روایتوں سے پتا چلتا ہے کہ جمع قرآن کی کارروائی جنگ یمامہ کے بعد شروع ہوئی۔
جنگ یمامہ میں صحابہ کی بہت بڑی تعداد شہید ہوئی تو عمر بن خطاب
ابو بکر صدیق کی خدمت میں پہنچے اور عرض کیا کہ حفاظ صحابہ کی وفات سے قبل قرآن کو یکجا کیا جانا چاہیے۔
چنانچہ ابو بکر صدیق نے زید بن ثابت کو اس کی ذمہ داری دی کیونکہ وہ اس کے اہل بھی تھے
اور عہد نبوی میں کاتب قرآن اور حافظ قرآن بھی تھے۔
علاوہ ازیں زید بن ثابت کی فہم و فراست، ذہانت و فطانت اور سچائی و امانت داری مشہور تھی۔
زید بن ثابت نے کاغذ کے ٹکڑوں، ہڈیوں اور چمڑوں کو اکٹھا کرکے اور حفاظ سے مل کر جمع قرآن کا آغاز کیا،
اس پورے عمل میں ابو بکر، عمر اور بڑے صحابہ ان کی معاونت اور نگرانی کر رہے تھے۔
قرآن کو ہر غلطی سے محفوظ رکھنے کے لیے ابو بکر و عمر نے یہ طریقہ کار وضع کیا
کہ صحابہ محض اپنے حافظہ اور سننے پر اکتفا نہ کریں بلکہ قرآن کا تتبع کریں، نیز ہر آیت کو دو ماخذ سے لیا جائے،
پہلا عہد نبوی میں لکھا ہوا اور دوسرا سینوں میں محفوظ۔
چنانچہ کسی آیت کو اس وقت تک قبول نہیں کیا جاتا
جب تک اس پر دو عادل گواہ اس کی گواہی نہ دے دیں کہ یہ آیت عہد نبوی میں لکھی گئی تھی۔
جمع قرآن کی کارروائی جاری رہی اور سورہ توبہ کی آخری آیتوں پر اختتام کو پہنچی جو ابو خزیمہ انصاری کے پاس ملیں۔
مکمل ہو جانے کے بعد یہ نسخہ ابو بکر صدیق کے پاس رہا، پھر عمر بن خطاب کے پاس اور بعد ازاں ان کی بیٹی حفصہ بنت عمر کے پاس محفوظ رہا۔
تمام علما کا اس پر اتفاق ہے
کہ عہد صدیقی میں جمع قرآن سے قبل صحابہ کے پاس اپنے ذاتی مصحف موجود تھ
ے جن میں انہوں نے قرآن یا اس کا کچھ حصہ اکٹھا کر رکھا تھا لیکن یہ انفرادی کاوشیں تھیں اور انہیں یکجا کرنے میں تلاش، تواتر اور اجماع صحابہ کا اس درجہ لحاظ نہیں رکھا گیا تھا جیسا عہد صدیقی میں ملحوظ رہا۔
عمر بن خطاب کی شہادت کے بعد عثمان بن عفان خلیفہ بنے اور سنہ 650ء تک اسلام سرزمین شام، مصر، عراق و ایران اور شمالی افریقا کے کچھ خطوں تک جا پہنچا۔
اہل سنت و الجماعت کے مصادر میں لکھا ہے کہ عثمان بن عفان آرمینیا اور آذربائیجان پر لشکر کشی کی تیاری کر رہے تھے
کہ اسی اثنا میں حذیفہ بن یمان ان کے پاس پہنچے اور یہ عرض گزاری:
“امیر المومنین! اس امت کو سنبھالیے، قبل اس کے کہ ان میں بھی کتاب
اللہ کے سلسلہ میں ایسا ہی اختلاف رونما ہو جیسا یہود و نصاریٰ کے یہاں ہوا”۔ حذیفہ بن یمان نے بتایا کہ تلاوت قرآن میں عراقیوں اور شامیوں میں کیسا اختلاف برپا ہے اور ہر ایک اپنے طرز قرات کو درست سمجھ رہا ہے۔
یہ سن کر عثمان بن عفان نے فوراً حفصہ بن عمر کے پاس قاصد بھیجا اور ان سے عہد ابو بکر کا مصحف طلب کیا۔
پھر زید بن ثابت، عبد اللہ ابن زبیر، سعید بن العاص اور عبد الرحمن بن حارث بن ہشام کو حکم دیا کہ وہ اس کی متعدد نقلیں تیار کریں۔
روایت میں لکھا ہے کہ عثمان نے ان سے کہا:
“اگر کسی جگہ تم میں اختلاف ہو جائے تو اسے قریش کے لہجہ میں لکھنا، کیونکہ قرآن انہی کے لہجہ ميں نازل ہوا ہے”۔
روایت میں یہ بھی ہے کہ جب ان حضرات نے نقلیں تیار کر لیں تو عثمان بن عفان نے اصل مصحف حفصہ کو لوٹا دیا اور اس کی نقلیں سارے عالم اسلام میں بھیج دیں اور حکم دیا کہ اس کے سوا بقیہ تمام نسخے نذر آتش کر دیے جائیں۔
چنانچہ اس کے بعد تمام نسخے ختم ہو گئے اور یہی نسخہ باقی رہا جو مصحف عثمانی کہلاتا ہے اور اب تک دنیا بھر میں یہی رائج چلا آرہا ہے۔
اہل تشیع کا نقطہ نظر یہ ہے کہ پیغمبر محمد اپنی زندگی میں حفظ قرآن کا خاصا اہتمام کرتے تھے اور سب سے پہلے انہوں نے جمع قرآن کا حکم دیا تھا۔
چنانچہ پیغمبر کی نگرانی ہی میں تمام آیتوں اور سورتوں کو مرتب کیا گیا۔
اہل تشیع کے بڑے علما
مثلاً سید ابو القاسم خوئی وغیرہ نے اہل سنت کی کتابوں میں مذکور روایتوں (جن میں سر فہرست صحیح بخاری کی روایت ہے) کا دقت نظر سے جائزہ لے کر ان کے تعارض اور اختلاف کو واضح کیا اور ساتھ ہی اہل سنت کی کتابوں میں درج ان روایتوں کو بھی پیش کیا جن سے معلوم ہوتا ہے
کہ قرآن کو عہد نبوی میں جمع کر لیا گیا تھا۔ مثلاً طبرانی اور ابن عساکر شعبی سے نقل کرتے ہیں، انہوں نے کہا:
“چھ انصاری صحابہ نے عہد نبوی میں قرآن کو یکجا کر لیا تھا، ابی بن کعب، زید بن ثابت، معاذ بن جبل، ابو الدردا، سعد بن عبید اور ابو زید”۔
اس روایت کو پیش کرنے کے بعد ابو القاسم خوئی نے لکھا ہے
کہ ان روایتوں میں لفظ “جمع” کے معنیٰ مکمل قرآن کو محفوظ کر لینے کے ہیں
اور اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان چند افراد نے مختلف جگہوں سے قرآن کو اکٹھا کرکے ایک مصحف میں محفوظ کر لیا تھا۔
عہد عثمانی میں نقل مصحف کی کارروائی کے متعلق خوئی کہتے ہیں
کہ اس جمع سے مراد تمام مسلمانوں کو ایک مصحف پر متحد کرنا تھا۔
چنانچہ انہوں نے اس کے سوا تمام مصاحف کو جلانے کا حکم جاری کیا تھا اور مسلمانوں کو اختلاف قرات سے حکماً منع کیا۔
Leave a Reply