Back to Posts
Back to Posts
18May
ناریل کو حیرت انگیز غذا کہا جاتا ہے۔ یہ تقریباً مکمل غذا ہے کیونکہ اس میں وہ تمام ضروری غذائی اجزا پائے جاتے ہیں جن کی انسانی بدن کو ضرورت ہوتی ہے۔
ہندو اسے انتہائی مقدس پھل سمجھتے ہیں اوراسے اپنی مذہبی رسومات میں عقیدت کے ساتھ استعمال کرتے ہیں۔
ناریل کا ابتدائی تعلق ملایا سے نیوگنی کے جنوب مغرب تک کے علاقے سے ہے۔
قدیم ہی میں یہ ایشیا کے وسطی علاقے میں پہنچ گیا تھا۔ اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ تین ہزار سال پہلے بھی ہندوستان میں ناریل اُگایا جاتا تھا۔
ویدوں میں ناریل کو جنت کا درخت کہا گیا ہے۔
غذائی اہمیت: ناریل غذائیت بخش، قوت بخش اور فربہی مہیا کرنے والی خوراک ہے۔ ناریل میں بہت زیادہ روغنی جزو ہوتا ہے جو آسانی سے ہضم ہوجاتا ہے۔
اس روغن یا تیل کی صورت اورکیمیائی ترکیب گھی سے ملتی جلتی ہے۔ ناریل کی پروٹین اعلیٰ معیار کی ہوتی ہے جس میں تمام امینوایسڈ پائے جاتے ہیں۔ ناریل میں پوٹاشیم، سوڈیم، میگنیشیم اور سلفر کی مقدار بھی وافر ہوتی ہے۔
خشک ناریل کی توانائی کی شرح بھی بہت اونچی ہے یعنی ایک سو گرام میں 662 کیلوریز ہوتی ہیں۔
شفا بخش صلاحیت اور طبی استعمال: ناریل نشوونما کرنے والی ، قوت بخشنے والی اور موٹاپا طاری کرنے والی غذا ہے۔ یہ پکنے تک ہر مرحلہ میں استمعال ہوتا ہے۔ غذائی اعتبار سے یہ پکنے سے پہلے زیادہ مفید ہوتا ہے۔
جیلی جیسی کچی گری کے مرحلہ میں اس کی چکنائی میں متعدد انزائمز پائے جاتے ہیں۔ تب یہ بہت زود ہضم ہوتا ہے، پکا ہوا ناریل چکنائی اورکاربوہائیڈریٹس سے مالامال ہوتا ہے۔
اس میں دیگر مغزوں کی طرح زیادہ پروٹین نہیں ہوتی۔
اس کے دودھ میں وٹامن اے بھی کافی پائی جاتی ہے جبکہ خود ناریل میں اس وٹامن کی بہت معمولی مقدار ہوتی ہے۔
ایک کچا مگر مکمل ناریل جس کی عمر صرف ایک ماہ ہو، اس میں 400سے 465 سی سی پانی ہوتا ہے۔ اس میں کافی شوگر ہوتی ہے جو آسانی سے ہضم ہوجاتی ہے۔
صحت کے لئے یہ ایک زبردست ٹانک ہے۔ ایک ناریل کے پانی میں اتنی وٹامن سی ہوتی ہے جو انسانی بدن کی ایک روز کی ضرورت ہے۔ بی گروپ کے متعدد وٹامنز بھی اس میں پائے جاتے ہیں۔
ان میں نایاسین ، پنیٹو تھینک ایسڈ، بائیوٹین، ریبوفلاوین، فولک ایسڈ، تھایامین اورپائیری ڈاکسن شامل ہیں۔ ناریل کے پانی میں سوڈیم ، پوٹاشیم، کیلشیم، میگنیشیم، آئرن، کاپر، فاسفورس، سلفر اورکلورین بھی موجود ہوتے ہیں۔
انتڑیوں کے کیڑے: ایک کھانے کا چمچہ تازہ پسا ہوا ناریل اگرناشتہ کے وقت لیا جائے اور اس کے بعد ہر تین گھٹے کے وقفہ سے کسٹرآئل کی ایک خوراک لی جائے تو کھل کر پاخانہ آتا ہے، کیڑے خارج ہوجاتے ہیں، اس عمل کو علاج مکمل ہونے تک دہرایا جاسکتا ہے۔
تیزابیت: پکا ہوا ناریل تیزابیت کے علاج کے لئے بہت مفید ہے اس کا تیل معدے سے تیزابیت کا اخراج روک دیتا ہے اورمریض کو تسکین ملتی ہے۔
نظام ہضم کی بے قاعدگیاں: کچی گری ہضم کی بے قاعدگیوں کی اصلاح کے لئے مو ¿ثر دوا ہے۔ یہ بدہضمی، بڑی آنت کی سوزش، معدے کے السر، اسہال، پیچش اور بواسیر کا بھی علاج ہے۔
کچے ناریل کا پانی بھی تبخیر، قے اور فساد ہصم کا عمدہ علاج ہے۔ قے میں جب دیگر طریقے ناکام ہوجائیں تو یہ اعلیٰ علاج بالغذا ثابت ہوتا ہے۔
ہیضہ: کچے ناریل کا پانی ہیضہ میں بھی کارگر ہے۔ آٹھ سے بارہ اونس ناریل کا پانی ایک چائے کا چمچہ لیموں کا رس ملا کر پینے سے ہیصہ کی تکلیف ختم ہوجاتی ہے۔
یہ الیکٹرولائٹ کا توازن درست اور خون کی تیزابیت دور کرتا ہے۔ ناریل کے پانی میں پوٹاشیم بھی کافی ہوتی ہے۔
جِلد کے امراض: پکے ہوئے ناریل کے گودے سے کشید کیا گیا تیل جلی اورجھلسی ہوئی جِلد پر لگانا ایک مو ¿ثر علاج ہے۔ ناریل کے تیل سے بنائے جانے والے مرہم بہت موزوں ثابت ہوتے ہیں کیونکہ یہ تیزی سے جلد میں سرائیت کرجاتے ہیں۔
استعمال: ناریلکا تیل بالوں کو بھی صحت مند بناتا ہے۔ اے پورے برصغیر میں بالوں کے تیل کی حیثیت سے استعمال کیا جاتا ہے۔
Leave a Reply