خودکشی کی وجوہات اور بچاؤ پاکستان میں انفرادی مایوسی اور اجتماعی بے بسی بڑھ رہی ہے
خودکشی کی وجوہات اور بچاؤ
پاکستان میں انفرادی مایوسی اور
اجتماعی بے بسی بڑھ رہی ہے
ڈاکٹر مسرت حسین، ماہر نفسیات
ذہن میں خوشی کا کوئی تصور نہیں ہوتا اور مستقبل کے منظر نامے پر صرف ماضی نظر آتا ہے۔
خودکشی کرنے والا یہ عمل کرنے سے پہلے ہمیشہ معالج، پڑوسی یا دوست پر اپنے ارادے کا اظہار کردیتا ہے۔
حساس معاشرہ اس اشارے کو سمجھ کر لوگوں کو یہ قدم اٹھانے سے روکنے کے لئے اقدامات کرتا ہے۔
خودکشی کا ارادہ رکھنے والے لوگ عوماً اس طرح کی باتیں کرتے ہیں۔ ’’یہ ہماری آخری ملاقات ہے یا اب اگلے جہاں میں ملیں گے‘‘ وغیرہ۔ اسی طرح ان لوگوں کے رویے میں بھی تبدیلی آجاتی ہے۔
وہ مایوسی کی کیفیت میں یہ عمل کرتے ہیں اور انہیں ایسا کرنے پر کوئی افسوس نہیں ہوتا۔
جو لوگ مایوس ہوتے ہیں وہ کئی مرتبہ خودکشی کی کوششیں کرتے ہیں۔ عموماً پہلی کوشش کامیاب نہیں ہوتی بلکہ سات میں سے ایک کوشش کامیاب ہوتی ہے۔
خواتین عموماً کیمیکل یا ادویات کا سہارا لیتی ہیں جو افراد زیادہ مایوس یا اُداسی کی بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں وہ سوچتے ہیں کہ ان کے بعد ان کے بچوں کا کیا ہوگا کیونکہ جو معاشرہ ان کا خیال نہیں رکھ سکا وہ ان کے بچوں کا کیا خیال رکھے گا۔
ایسے افراد بچوں سمیت خودکشی کرتے ہیں۔
حالانکہ وہ لوگ خوشحال ہیں انہوں نے اسے فطری روانگی (نیچرل ڈپارچر) کی شکل دے دی ہے۔ ہمارے ہاں شہری علاقوں میں نوجوانوں اور عورتوں میں خودکشی کی شرح زیادہ ہے۔
بے روزگار افراد زیادہ خودکشی کرتے ہیں۔ آج کل پاکستان میں بہت سے لوگوں کو امید کی کرن نظر نہیں آرہی ہے۔ نفسا نفسی کا عالم ہے، خاندان کی طرف سے مدد ملنے کا نظام ختم ہوچکا ہے۔
انفرادی مایوسی اور اجتماعی بے حسی میں اضافہ ہورہا ہے۔ معاملہ فہمی کی سطح پست ہوتی جارہی ہے۔ یہاں یہ بات یاد رکھی جائے کہ تعلیم یافتہ افراد کا معاملہ فہم ہونا ضروری نہیں ہے۔
پاکستان میں منشیات کے عادی، شیز و فرینیا کے مریض اور شدید ذہنی انتشار کے شکار افراد اور خطرناک بیماریوں میں مبتلا افراد بھی امید کی کرن نظر نہ آنے پر خودکشی کرلیتے ہیں۔
ہم ہر معاملے میں حکومت کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں لیکن حکومت ہی ہر کام کی ذمہ دار نہیں ہوتی ہے۔ ہمارا معاشرہ اپنی اجتماعی اور لازمی ذمہ داریاں ادا نہیں کررہا ہے۔ ہر سطح پر بے حسی اور نفسا نفسی کا عالم ہے۔
Leave a Reply