قرآن کی زبان فصیح عربی ہے
جسے آج بھی ادبی مقام حاصل ہے
اور باوجودیکہ عربی کے کئی لہجے (مصری، مراکشی، لبنانی، کویتی وغیرہ) پیدا ہو چکے ہیں،
قرآن کی زبان کو ابھی تک عربی کے لیے ایک معیار کی حیثیت حاصل ہے۔
عربی کے بڑے بڑے عالم جن میں غیر مسلم بھی شامل ہیں
قرآن کی فصیح، جامع اور انسانی نفسیات سے قریب زبان کی تعریف میں رطب اللسان ہیں۔
اتنی بڑی کتاب ہونے کے باوجود اس میں کوئی گرامر کی غلطی بھی موجود نہیں۔
بلکہ عربی حروف ابجد کے لحاظ سے اگر ابجد کے اعداد کو مدِ نظر رکھا جائے
تو قرآن میں ایک جدید تحقیق کے مطابق جو ڈاکٹر راشد الخلیفہ نے کمپیوٹر (کمپیوٹر) پر کی ہے،
قرآن میں باقاعدہ ایک حسابی نظام موجود ہے جو کسی انسان کے بس میں نہیں۔
قرآن میں قصے بھی ہیں اور تاریخی واقعات بھی، فلسفہ بھی ملے گا
اور منطق بھی، پیچیدہ سائنسی باتیں بھی ہیں اور عام انسان کی زندگی گذارنے کے طریقے بھی۔
جب قرآن نازل ہوا اس وقت جو عربی رائج تھی وہ بڑی فصیح تھی
اور اس زمانے میں شعر و ادب کو بڑی اہمیت حاصل تھی لھٰذا یہ ممکن نہیں
کہ قرآن میں کوئی غلطی ہوتی اور دشمن اس کے بارے میں بات نہ کرتے۔
بلکہ قرآن کا دعوہ تھا کہ اس جیسی ایک آیت بھی بنا کر دکھا دیں
مگر اس زمانے کے لوگ جو اپنی زبان کی فصاحت اور جامعیت کی وجہ سے دوسروں کو عجمی (گوں گا) کہتے تھے، اس بات میں کامیاب نہ ہو سکے۔
قرآن کی پہلی اور آخری آیت قرآن مجید کی پہلی آیت:
” (اے حبیب!) اپنے رب کے نام سے (آغاز کرتے ہوئے) پڑھئے جس نے (ہر چیز کو) پیدا فرمایا۔
اس نے انسان کو (رحمِ مادر میں) جونک کی طرح معلّق وجود سے پیدا کیا۔ پڑھیئے اور آپ کا رب بڑا ہی کریم ہے۔
جس نے قلم کے ذریعے (لکھنے پڑھنے کا) علم سکھایا۔
جس نے انسان کو (اس کے علاوہ بھی) وہ (کچھ) سکھا دیا جو وہ نہیں جانتا تھا۔“ قرآن مجید کی آخری آیت : ” ۔
اس دن کی رسوائی و مصیبت سے بچو، جبکہ تم اللہ کی طرف واپس ہوگے،
وہاں ہر شخص کو اس کی کمائی ہوئی نیکی یا بدی کا پورا پورا بدلہ مل جائے گا اور کسی پر ظلم ہر گز نہ ہوگا۔
قرآن میں موجود حروف مقطعات
تفصیلی مضمون کے لیے حروف مقطعات ملاحظہ کریں۔
حروف مقطعات (عربی: مقطعات، حواميم، فواتح) قرآن مجید کی بعض آیات کے شروع میں آتے ہیں اور الگ الگ پڑھے جاتے ہیں،
ان کو آیات مقطعات اور ان حروف کو حروف مقطعات کہا جاتا ہے،
مثلاً الم۔ یہ قرآن کی انتیس سورتوں کے آغاز میں آتے ہیں۔
یہ کل چودہ حروف ہیں ا، ل، م، ص، ر، ک، ہ، ی، ع، س، ج، ق، ن۔
مسلمان علما کا متفقہ نظریہ ہے کہ ان کا حقیقی مطلب اللہ ہی کو معلوم ہے۔
مقطعات کا لفظی مطلب قطع شدہ، ٹکڑے، کترنیں کے ہیں۔
بعض علما کے مطابق یہ عربی الفاظ کے اختصارات ہیں اور بعض علما کے مطابق یہ کچھ رمز (code) ہیں۔یہ حروف 29 سورتوں کی پہلی آیت کے طور پر ہیں اور سورۃ الشوریٰ ( سورۃ کا شمار: 42) کی دوسری آیت کے طور پر بھی آتے ہیں۔
یعنی یہ ایک سے پانچ حروف پر مشتمل 30 جوڑ (combinations)
ہیں۔
جو 29 سورتوں کے شروع میں قرآن میں ملتے ہیں۔
قرآنجدید ذرائع انٹرنیٹ
کی ترقی سے جہاں مواد کو لوگوں تک پہنچانا آسان ہو گیا ہے
وہاں قرآن کے بارے میں ویب سائٹوں کی بہتات ہے جس میں سے کچھ تو درست مواد فراہم کرتے ہیں
مگر بیشتر غلطیوں سے پاک نہیں۔
اس میں کچھ تو قرآن کو یونیکوڈ میں لکھنے کی مشکلات ہیں مگر کچھ اسلام کے خلاف کام کرنے والوں کا کام ہے
جس میں قرآن کے عربی متن اور اس کے ترجمہ کو بدل کر رکھا گیا ہے۔
جس کا عام قاری اندازہ نہیں لگا سکتا۔
اس لیے یہ ضروری ہے
کہ صرف ایسی سائٹس کی طرف رجوع کریں جن کے بارے میں یقین ہو کہ وہ درست یا تصدیق شدہ ہیں۔
اس کا ایک حل یہ ہو سکتا ہے کہ ایک ایسا مرکزی ادارہ بنایا جائے جس میں تمام مسلمان ممالک کی حکومتوں کے نمائندے اور ماہرین شامل ہوں اور ماہرین کسی بھی قرآنی ویب سائٹ کی تصدیق کر سکیں اور اسے ایک سرٹیفیکیٹ جاری کر سکیں جو ان کی ویب سائٹ پر لگائی جائے۔
جو کم از کم عربی متن کی تصدیق کرے جیسا پاکستان میں چھپے ہوئے قرآن کے سلسلے میں ہوتا ہے۔
اس کی تصدیق کہ کوئی قرآنی ویب سائٹ مصدقہ ہے کہ نہیں، اس مرکزی ادارہ کی ویب سائٹ سے ہو سکے۔
چونکہ انٹرنیٹ پر پابندی نہیں لگائی جا سکتی اس لیے لوگوں کی اپنی کوشش ہوگی کہ وہ اس مرکزی ادارہ کی تصدق شدہ ویب سائٹ کا استعمال کریں۔
تا حال ایسا کوئی ادارہ نہیں مگر مستقبل میں یہ نہائت ضروری ہوگا۔
Leave a Reply