پاکستان میں خودکشی کے رحجانات میں کیوں اضافہ ہورہا ہے ؟

Back to Posts

پاکستان میں خودکشی کے رحجانات میں کیوں اضافہ ہورہا ہے ؟

 خودکشی

امید کے دیے ٹِمٹِمارہے ہیںمہنگائی، بے روزگاری اور بے بسی کا احساس بڑھنے کی وجہ سے لوگوں میں جینے کی اُمنگ کم ہوتی جارہی ہے۔گزشتہ چند برسوں سے پاکستان میں خودکشی کے بڑھتے رحجان نے بہت سے سوالات کو جنم دیا ہے۔

دست یاب اعداد و شمار کے مطابق ملک میں خودکشی کرلینے یا اس کی کوشش کرنے والے زیادہ تر افراد کی عمریں 30 برس سے کم ہوتی ہیں۔

ان میں سے مرد عموماً غیر شادی شدہ اور خواتین شادی شدہ ہوتی ہیں۔ پھندا لگالینا، بندوق کا استعمال یازہریلی ادویات کا استعمال اس مقصد کے لیے عام ہے۔

عام وجوہات میں گھریلو مسائل، خاندانی جھگڑے ، نفسیاتی الجھن اور نفسیاتی مرض شامل ہیں۔

سماجی اور نفسیاتی ماہرین کے مطابق زندگی گزارنے کے لیے ضروری وسائل کی کمی، صحت و صفائی کی بنیادی سہولتوں کا نہ ہونا، دماغی و نفسیاتی صحت کی معلومات نہ ہونا اور ہمارا کم زور سیاسی، معاشرتی ، مذہبی اور اخلاقی نظام ہے جو خودکشی کے خطرناک رحجان کو روکنے میں بے بس نظر آتا ہے۔

ماہرین کے مطابق اس رحجان پر قابو پانے کے لیے صرف حکومت کو نہیں بلکہ پورے معاشرے اور غیر سرکاری تنظیموں اور اداروں کو بھی آگے آنا ہوگا۔

ہمارے ملک میں خودکشی کے رحجان میں اضافہ کیوں ہورہا ہے؟ کیا ذہنی و فکری انتشار، تعلیم کی کمی، غربت، دماغی و نفسیاتی امراض، معاشرتی، اقتصادی اور سیاسی نظام کی خرابی اس کی وجوہات ہیں؟ یا اس کے پس منظر میں کچھ اور عوامل کارفرما ہیں۔

یہاں ہم نے ان سوالات کے جوابات جاننے کی کوشش کی ہے۔

اسلام میں خودکشی کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ اس کے باوجود پاکستان جیسے اسلامی ملک میں خودکشی کے رحجان میں اضافہ یہ سوال پیدا کرتا ہے کہ آخر ایسا کیوں ہورہا ہے؟ ہماری مشکل یہ ہے کہ ملک میں سرکاری سطح پر خودکشی کے بارے میں اعداد و شمار جمع اور پیش کرنے کا نظام نہیں ہے لہذا اس بارے میں سرکاری سطح پر غور و فکر کرنے کی بات نہیں کی جاسکتی ہے۔

پاکستان میں اموات کی سالانہ شرح کے بارے میں حکومت کی جانب سے جو اعداد و شمار جاری کیے جاتے ہیں ان میں خودکشی کے ذریعے ہونے والی اموات کا کوئی ذکر نہیں ہوتا۔

اگرچہ پاکستان میں رائج قانون کے مطابق خودکشی یا خود کو جسمانی نقصان پہنچانے کا عمل غیر قانونی قرار دیا گیا ہے اور ایسا کرنے والے کے لئے جرمانے اور جیل کی سزائیں موجود ہیں۔

قانون یہ بھی کہتا ہے کہ خودکشی کی کامیاب یا ناکام کوشش کے کیسز کو لازماً کسی سرکاری ہسپتال تک لانا چاہیے۔

اس مقصد کے لئے میڈیکو لیگل سینٹر کی قانونی اصطلاح موجود ہے اور سرکاری ہسپتال میں میڈیکو لیگل افسران مقرر ہیں لیکن ہوتا کیا ہے؟ یہ ہم سب جانتے ہیں۔

خودکشی کے اکثر واقعات میں لوگ خودکشی کرنے والے کو سرکاری ہسپتال نہیں لے جاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عام شہری پولیس کے محکمے اور پولیس کی کارروائی سے خوفزدہ رہتا ہے۔

پھر پولیس تک جانے کی صورت میں رشوت اور لوٹ کھسوٹ کا خطرہ بھی رہتا ہے۔ قانون یہ بھی کہتا ہے کہ خودکشی کی کامیاب کوشش کی صورت میں مرنے والے شخص کا لازماً پوسٹ مارٹم ہونا چاہیے مگر زیادہ تر کیسز میں ایسا نہیں ہوتا۔

1991ء سے 2000ء تک کے دستیاب غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں سالانہ تقریباً ایک لاکھ افراد خود کو جسمانی نقصان پہنچاتے یا پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان میں بہت سوں کی جانیں بچائی جاسکتی ہیں لیکن ایسا نہیں کیا جاتا ہے۔

2001ء میں جاری ہونے والے دماغی صحت کے آرڈیننس کے مطابق خودکشی کی کوشش

ناکام ہونے کی صورت میں زندہ بچ جانے والے افراد کا نفسیاتی تجزیہ کیا جانا چاہیے۔

اس آرڈیننس کی دفعہ نمبر 49 کہتی ہے۔ ’’خودکشی کی کوشش کرنے والے شخص کا مستند

ماہر نفسیات کے ذریعے تجزیہ ہونا چاہیے اور اگر وہ کسی نفسیاتی مرض میں مبتلا پایا جائے تو

اس آرڈیننس کے تحت اس کا مناسب علاج ہونا چاہیے‘‘۔

یہ درست ہے کہ خودکشی کے بڑھتے ہوئے رحجان پر قابو پانے کے لیے کئی طریقوں سے کام کرنے کی ضرورت ہے اور یہ تنہا حکومت کے بس کی بات نہیں ہے۔

اس مقصدکے لئے ہم سب کو مل جل کر کام کرنا ہوگا۔ یہاں امریکا اور یورپ کی نہیں بلکہ اپنے خطے کی اور ہماری ہی طرح کے ترقی پذیر ملک سری لنکا کی مثال پیش کرنا غلط نہیں ہوگا۔

دنیا بھر میں کرائسز انٹرونیشن سینٹرز (بحران کی صورت میں مدد دینے والے مراکز) اور خودکشی کو روکنے والی ٹیلی فون کی ہاٹ لائنز، خودکشی پر آمادہ افراد کو یہ قدم اٹھانے سے روکنے میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہیں۔

سری لنکا میں یہ سہولتیں موجود ہیں اور سری لنکا کے اداروں کے دستیاب اعداد و شمار ان اداروں کی عمدہ کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ہمیں بھی اس طرح قدم بہ قدم آگے بڑھنا ہوگا اور امداد باہمی کے ادارے قائم کرنا ہوں گے۔

اس کے علاوہ معاشرے کے ہر فرد کو دوسروں کے لئے اپنے دل میں گنجائش پیدا کرنا ہوگی اور ایک دوسرے کی مدد کرنے اور اختلافات کو برداشت کرنے کا جذبہ پیدا کرنا ہوگا۔

 

یہ مضمون احساس انفورمییٹکس (پاکستان)۔

https://ahsasinfo.com

کی کتاب ،،خودکشی کی وجوہات اور بچاؤ،،سے منتخب کیا ہے

مدیر: ڈاکٹر امین بیگ

نظرَثانی: ڈاکٹر باقر رضا

مزید آگاہی کے لیےؑ ویب پر کتاب کا مطالعہ کیجےؑ

Share this post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to Posts