خودکشی کی وجوہات اور بچاؤ خودکشی کی وجہ لوگوں کی بے بسی ہے
خودکشی کی وجہ لوگوں کی بے بسی ہے
ڈاکٹر منظور احمد، فلسفی اور دانشور
تا 95 فیصد واقعات کی وجہ یہی بے بسی ہوتی ہے۔باقی واقعات کی وجہ نفسیاتی مسائل ہوتے ہیں۔ موجودہ حالات میں بعض موقعوں پر صحت مند انسان کو بھی یہ خیال آتا ہے کہ اس طرح جینے سے بہتر ہے کہ مر جاؤں۔
جب انسان بے بسی کی کیفیت میں مبتلا ہوتا ہے تو موت کا خیال اس کے دل میں جڑ پکڑ لیتا ہے اور وہ خودکشی کی کوشش کرتا ہے۔ سوئزر لینڈ میں بھی خودکشی کی وجہ بے بسی ہی ہے۔
لیکن وہ دوسری قسم کی ہے۔ ان کے ہاں خودکشی حرام نہیں ہے یہ عمل خدا کی نافرمانی کے زمرے میں نہیں آتا اور وہاں اسلامی معاشرے کی طرح زندگی کے قیمتی ہونے کا تصور بھی نہیں ہے۔
وہ جب زندگی میں مشکلات محسوس کرتے ہیں تو سوچتے ہیں کہ چلو زندگی ختم کرکے تمام مشکلات سے چھٹکارا پالیں لیکن وہاں بھی لوگ اس وقت ایسا کرتے ہیں جب انہیں مسائل کے حل کے لیے کوئی راہ دکھائی نہیں دیتی ہے۔
پہلی قسم یہ ہوتی ہے کہ نارمل انسان کے سامنے کسی مسئلے کے حل کے لیے کئی تجاویز ہوں لیکن وہ ساری تجاویز تقریباً ایک جیسی ہوں اور ان سے مسئلے کے حل میں کوئی مدد نہ ملتی ہو۔
دوسری قسم یہ ہوتی ہے کہ انسان کے ذہن میں چیزوں کے بارے میں واضح تصورات نہ ہوں۔ خراب نفسیاتی کیفیت وہ ہوتی ہے، جس میں لوگوں کے سامنے زندگی کا کوئی مقصد نہیں رہ جاتاہے۔
علم اگر باقاعدہ طریقے سے حاصل نہ کیا جائے تو وہ فکری مسائل پیدا کرسکتا ہے ادھورا علم خطرناک ہوتا ہے۔ اگر کسی انسان کا ذہن حاصل ہونے والے علم کو جذب کرنے کے لئے تیار ہو اور علمی باتوں کو ذہن کے خانوں میں قرینے سے رکھا جائے تو یہ مسئلہ پیدا نہیں ہوتاہے۔
لیکن بے ترتیب طریقے سے مطالعہ کرکے ذہن میں کباڑ جمع کرنے پر نقصان کا خطرہ ہوتا ہے۔ اسی طرح دولت کی فراوانی بھی انسان کو خودکشی سے نہیں روک سکتی ہے۔
کھاتے پیتے گھرانے کے لوگ بھی خودکشی کرتے ہیں کیونکہ جب کسی انسان کے لیے زندگی کی معنویت ختم ہوجاتی ہے تو وہ زندہ رہنا بے کار سمجھتا ہے۔ آج کل ملک میں کیبل ٹی وی کے چینلز کی بھرمار ہے۔
لوگوں کو ٹی وی پروگرامز میں بھانت بھانت کی بولیاں سننے کو ملتی ہیں تو وہ کسی مسئلے کے بارے میں خود کوئی رائے قائم نہیں کرپاتے۔ بزرگوں کا کہنا تھا’’ایک من علم را، دہ من عقل باید‘‘ یعنی ایک من علم کے لئے دس من عقل کی ضرورت ہوتی ہے۔ہمارے معاشرے کا ایک اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ گھر، مدرسہ اور معاشرہ لوگوں کی عقل و دانش کی تربیت (انٹیلیکچول ٹریننگ) نہیں کرتا ہے۔
اساتذہ بچوں کو سوال کرنے پر نہیں اکساتے بلکہ یہ کہتے ہیں کہ یہ سوال ہے اور اس کا یہ جواب ہے۔ بچے جواب رٹ رٹ کر امتحان میں کامیابی حاصل کرلیتے ہیں۔
گزشتہ دنوں گلستان جوہر، کراچی میں ایک خاتون کی جانب سے بچوں کو زہر دے کر خود زہر کھالینے کے واقعے کے پس منظر میں بہت سا فرسٹریشن رہا ہوگا۔
جب غم و غصہ، فرسٹریشن اور بے بسی جمع ہوتی رہتی ہے تو کوئی ایک بات یا واقعہ چنگاری کا کام کردیتا ہے اور آگ بھڑک اُٹھتی
Leave a Reply