ہائی بلڈ پریشر اور رسک فیکٹر
انسانی جسم میں خون کی گردش کو برقرار رکھنے والی شریانوں، نسوں، رگوں اور وریدوں کی بیماریوں (جن کے نتیجے میں دل کا دورہ، دماغ کی نس کا پھٹنا اور گردے کا ناکارہ ہونا شامل ہے) اب تک سامنے آنے والے نتائج کے مطابق دماغ کی شریان پھٹنے اور دل کے دورے سے دوچار ہونے والے افراد میں رسک فیکٹر عام افراد کی نسبت بہت زیادہ پائے جاتے ہیں،
موٹاپا
موٹاپا یا زائد وزن رسک فیکٹرز کو فروغ دیتا ہے اس لئے بذات خود بھی ایک خطرہ اور رسک فیکٹر قرار دیا جاتا ہے۔ 85 فیصد شوگر کے مریض 80فیصد خون میں کولیسٹرول کی بہتات رکھنے والے افراد، 70 فیصد افراد جو خون میں یورک ایسڈ کی فراوانی رکھتے ہیں اور 60 فیصد افراد جو ہائی بلڈ پریشر کے مریض ہوتے ہیں ان کو زائد وزن کا بنیادی رسک فیکٹر درپیش ہوتا ہے۔
موٹاپے یا زائد وزن کا سبب زیادہ کھانا یا کاہلی سستی ہوتا ہے ایسے افراد کے روزمرہ معمول میں ورزش یا جسمانی بھاگ دوڑ کی کمی ہوتی ہے۔ عموماً ایسے افراد کی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں دفاتر میں میز کرسی تک اور کارخانوں میں مشینوں پر ایک جگہ پابند رہنے تک محدود ہوتی ہیں اسی طرح کچھ لوگوں کی سارے دن کی مصروفیات محض ڈرائیونگ سیٹ پرختم ہوجاتی ہیں۔
زیادہ وزن دوسرے رسک فیکٹر میں شدت پیداکرسکتا ہے یوں صحت کے لئے خطرات پیدا ہوجاتے ہیں اس اہم فیکٹر سے بچا جاسکتا ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ ایسے افراد جن کا وزن معمول سے 20 فیصد زیادہ تھا ان میں ہائی بلڈ پریشر پیدا ہونے کے امکانات عام افراد سے تین گنا زیادہ ہوتے ہیں۔ جس طرح زیادہ وزنہونے سے افراد ہائی بلڈ پریشر کا شکار ہوجاتے ہیں اسی طرح وزن نارمل کرلینے سے بلڈ پریشر بھی نارمل ہوجاتا ہے۔
کولیسٹرول کی زیادہ مقدار ہمارے جسم میں خودبخود پیدا ہوتی ہے لیکن خون میں کولیسٹرول کی مقدار کا تعلق ہماری غذا کی نوعیت سے ہوتا ہے اگر ہم ایسی غذا استعمال کرتے ہیں جو حیوانی گوشت پر مشتمل ہو تو اس گوشت میں پہلے سے موجود کولیسٹرول ہمارے خون میں داخل ہوکر ہمارے کولیسٹرول کی مقدار بڑھادیتے ہیں۔
درمیانی عمر کے وہ افراد جن کے خون میں کولیسٹرول کی مقدار 250 ملی گرام فیصد ہو، انہیں ہارٹ اٹیک کا معمولی خطرہ ہوتا ہے لیکن جیسے جیسے یہ مقدار بڑھتی جاتی ہے خطرہ بھی بڑھتا جاتا ہے اس طرح خون میں ٹرگلیسرائیڈز کی بڑھتی ہوئی مقدار بھی خطرے کی گھنٹی ہوتی ہے اسے بھی کسی طور نظرانداز نہیں کیا جانا چاہئیے۔
دیگر رسک فیکٹر
سگریٹ نوشی ہائی بلڈ پریشر کے مریضوں کے لئے منفی اثرات رکھتی ہے ایک سگریٹ پینے سے تھوڑی دیر کے لئے بلڈ پریشر میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ ابھی اس بات کا علم نہیں ہوسکا کہ یہ بلڈ پریشر میں مستقل رہنے والے اضافے کو قائم رکھنے میں کوئی کردار ادا کرتا ہے یا نہیں۔ تاہم یہ حقیقت تسلیم شدہ ہے کہ ہائی بلڈ پریشر کے جو مریض تمباکو نوشی کرتے ہیں ان میں مرض کا شدت اختیار کرلینا معمول ہے۔
نکوٹین دل کی رفتار بھی تیز کرتی ہے دھڑکنوں میں اضافے سے دل کی کارکردگی بھی متاثر ہوتی ہے۔
سگریٹ کے دھوئیں میں موجود کاربن مونوآکسائیڈ خون کے ہیموگلوبن کے ساتھ مل کر ایک مرکب کاربو اوکسی ہیموگلوبن بناتی ہے۔ یہ مرکب صاف ہیموگلوبن کی طرح آکسیجن جذب کرکے اسے جسم کے مختلف حصوں تک پہنچانے کا کام نہیں کرسکتا۔ خون میں اس کی بہتات سے جسم بالعموم اور دل اور دماغ بالخصوص آکسیجن سے محروم ہونے لگتے ہیں اس کے نتیجہ میں انجائنا بگڑجاتا ہے۔
تمباکو نوشی کئی اور سنگین بیماریوں کو جنم دیتی ہے یا ان کی شدت میں اضافہ کرتی ہے۔ ان میں منہ اور پھیپھڑوں کا کینسر، پرانا براونکائٹس اور سانس میں رکاوٹ اورکانجیسٹو کارڈیک فیلیور شامل ہے۔
ایک پیکٹ (20 سگریٹ) روزانہ پینے والے فرد کو تمباکو نوشی نہ کرنے والے فرد کی نسبت ہارٹ اٹیک کا خطرہ تین گنا زیادہ ہوتا ہے۔ چنانچہ جس قدر سگریٹ کی مقدار بڑھے گی خطرے کی سنگینی بھی بڑھے گی۔
اگر آپ ذیابیطس کے ساتھ ہائی بلڈ پریشر کے مریض ہیں تو آپ کو اپنی خوراک میں مناسب پابندیوں کا خیال رکھنا ہوگا۔ ہائی بلڈ پریشر کی طرح ذیابیطس پر کنٹرول بھی ساری عمر کا عمل ہے۔ نیم دلی سے کئے جانے والے اقدامات موثر ثابت نہیں ہوتے۔
شوگر کو جزو بدن بنانے والا نظام جب خراب ہوتا ہے تو جسم کے دوسرے میٹابولزم (غذا کو جزو بدن بنانے والا نظام) کو بھی خراب کرتا ہے۔
بلڈ کولیسٹرول اور ایل ڈی ایل) لو ڈینسٹی لیپڈز) کولیسٹرول میں اضافہ ہوجاتا ہے ان کی وجہ سے شریانو ں میں ایتھروما کی نشوونما میں تیزی آجاتی ہے چنانچہ ہارٹ اٹیک اور اسٹروک کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔
شوگر کے مریضوں کو ہارٹ اٹیک کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔ ایک جیسی عمر کے افراد میں سے ان کو ہائی بلڈ پریشر کا مرض ہونے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے جن میں شوگر بھی ہو، یہ خطرہ شوگر ے مریض مردوں اور عورتوں میں ایک جیسا ہوتا ہے۔ شوگر اور ہائی بلڈ پریشر کی بیک وقت موجودگی امراض قلب کو یقینی بنانے کا موجب بنتی ہے اسی طرح اگر کسی شوگر کے مریض کو خون کے ذرّات کی تباہی کی بیماری بھی لاحق ہو تو اسے شوگر گینگرین کا خطرہ بھی رہتا ہے۔
رسک فیکٹرز اور امراض قلب کے درمیان گہرا تعلق ہے۔ ان کی موجودگی سے دل کو خون سپلائی کرنے والی نالیاں اور دیگر شریانیں سکڑنے یا بند ہونے کے امراض میں مبتلا ہوجاتی ہیں۔ شریانوں کی دیواروں کی شکست و ریخت سارے نظام کو درہم برہم کردیتی ہے سنگین صورتحال یہی ہے کہ جب یہ فیکٹر پیدا ہوتا ہے تو نظرانداز ہونے کے سبب اپنے انتہائی نقصان دہ عمل کو مکمل کرلیتا ہے۔ چاہے ہماری عمر زیادہ نہ ہو یہ داخلی نظام کو ضعیف العمر فرد جیسا بنادیتا ہے
مرض میں ان کی دیواروں کی لچک ختم ہوجاتی ہے ان کی ساخت بگڑ کر سخت ریشوں کی شکل اختیارکرلیتی ہے۔
دیواروں پر کیلشیم سالٹ جم جاتا ہے چنانچہ شریانوں کی اندرونی دیواروں کے ساتھ خون کے کلاٹ (لوتھڑے) چپکنا شروع ہوجاتے ہیں۔
لچکدار شریانیں غیر لچکدار ٹیوبوں میں تبدیل ہوجاتی ہیں۔
دیواریں موٹی اورسخت ہوجانے سے آکسیجن اور غذا کی فراہمی رک جاتی ہے دل کے پٹھوں کے خلیے تباہ ہوکر مرجاتے ہیں انجام کار مریض دل کے دورے اور ہارٹ فیل سے دوچار ہوجاتا ہے۔
شریانوں کے بگاڑ سے تین اہم عضو دل، دماغ اورگردے خطرے اورپیچیدگیوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔
ہائی بلڈ پریشر سے منسلک دو بڑے رسک فیکٹر تمباکو نوشی اور کولیسٹرول کی بہتات خطرات کو کئی گنا بڑھادیتی ہے۔
کے ساتھ شوگر والے مریض اگر تمباکو نوشی کرتے ہیں (چاہے کم یا زیادہ) انہیں ہائی بلڈ پریشر ہوتا ہے اسی طرح جس فرد میں ایک سے زائدرسک فیکٹر ہوں وہ بھی خطرے کی زد میں ہوتا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ آپ بھی خطرے کی زد میں ہیں اور آپ کو اس بات کی خبر ہی نہ ہو۔ اس لئے یہ بات خود آپ کے مفاد میں ہے کہ آپ اس امر کا یقین کرلیں ۔
Leave a Reply