چھاتی کے کینسر کی شرح

Back to Posts

چھاتی کے کینسر کی شرح

چھاتی کے کینسر کی شرح

دنیا ، پاکستان اور دیگر ممالک میں چھاتی کے کینسر کی شرح کے تناسب سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔

کہ پاکستان میں چھاتی کے کینسر کے متعلق آگاہی اور شعور بیدار کرنا کتنا اہم ہے۔

دنیا میں شرح تناسب

خواتین میں چھاتی کے کینسر کا تناسب بہت زیادہ ہے اور شرح اموات کے تناسب کے لحاظ سے اس کا دوسرا نمبر ہے۔

دنیا میںسب سے زیادہ اموات خواتین میں پھیپھڑوں کے کینسر سے ہوتی ہےں۔

جبکہ چند دہائی پہلے خواتین میں سب سے زیادہ شرح اموات چھاتی کے کینسر کی وجہ سے تھی۔ 1960۔1963ء

کے دوران جو اعدادوشمار اکٹھے کیے گئے ان کے مطابق صرف 62 فیصد خواتین علاج کے بعد 5 سال تک زندہ رہ سکتی تھیں جبکہ 1981۔1987

ءکے عرصے میں یہی تناسب بڑھکر 78 فیصد ہوگیا اور حالیہ اعدادوشمار کے مطابق اس کا تناسب 85 فیصد سے بھی کہیں زیادہ ہے۔

اس کی وجہ جلد تشخیص اور بہتر طریقہ علاج ہے۔ کیونکہ اس کی تشخیص جتنی جلدی ہوگی۔ علاج کے نتائج اتنے ہی بہتر ہونگے۔

پاکستان میںشرح تناسب

پاکستان میں چھاتی کے کینسر کے متعلق آگاہی و شعور بیدار کرنے کی انتہائی ضرورت ہے جس کا اندازہ درج ذیل اعداد و شمار سے کیا جاسکتا ہے۔

کینسر ایک مہلک اور جان لیوا بیماری ہے

جو جان کے خطرہ کے ساتھ ساتھ جسمانی معذوری کی شکل میںبھی ظاہر ہوتی ہے

اس کے علاوہ یہ بیماری انسان کی نفسیاتی اور معاشرتیزندگی کو بھی بری طرح متاثر کرتی ہے۔

کینسر ان چند بیماریوں میں سے ایک ہے جو انسان میں سب سے زیادہ اموات کا باعث بنتی ہیں۔
اہم اور تشویش ناک بات یہ ہے کہ پاکستان میں ہر لاکھ میں سے تقریبا ۲۵ خواتین کو چھاتی کا سرطان لاحق ہو جاتا ہے۔
چونکہ ہمارے ملک میں مریضوں کا ریکارڈ رکھنے کا کوئی نظام یا رواج نہیں ہے۔

اس لیے اس بیماری کے صحیح اعدادوشمار ملکی سطح پر موجود نہیں ہیں مگر چند ایک سروے جو کہ مختلف اسپتالوں میں کیے گئے ہیں۔

ان کے مطابق اس کا تناسب مغربی ممالک سے کافی حد تک کم ہے۔

پاکستان میں چھاتی کے کینسر پر قابو پانے کے لیے درج ذیل عوامل کے متعلق آگاہی فراہم کرنا انتہائی ضروری ہے۔

عمر:

پاکستانی خواتین میں چھاتی کا سرطان دوسرے ممالک کی نسبت کم عمری ہی میں ہو جاتا ہے۔

ایک تحقیق میں دریافت ہوا کہ جن خواتین کو چھاتی میں رسولی کی شکایت تھی۔

ان میں سے اکثریت کی عمر تیس اور انتالیس کے درمیان تھی۔

وراثت :

چھاتی کا سرطان ان سرطانوں میں شامل ہے جو وراثت میں بھی مل سکتے ہیں۔

ان شواہد پر مزید تحقیق سے معلوم ہوا کہ چونکہ پاکستان میں ایک ہی خاندان میں شادیاں کرنے کا رجحان بہت عام ہے،

اس لیے یہ تقلیبیں( میوٹیشن (Mutation

ایک خاندان میں اکٹھی ہو جاتی ہیں۔

تاخیر:

علاوہ ازیں، چھاتی کے سرطان میں مبتلا خواتین کی غالب اکثریت کسی طبی ادارے کا رخ کرتے کرتے بہت دیر کردیتی ہیں۔

جس کی وجہ سے ۳۷ فیصد خواتین میں تشخیص کے وقتسرطان لمفائی غدودوں تک سرایت کر جاتا ہے۔

کراچی میں شرح تناسب:

کراچی سرطان دفترکا ایک مسئلہ تو یہ ہے کہ وہ صرف ایک ضلع پر مبنی ہے،

اور ضلع بھی پاکستان کے سب سے بڑے شہر کا جہاں دولت اور سامانِ تعیش کی فراوانی ملک کے دوسرے حصوں سے کہیں زیادہ ہے۔

اس کے علاوہ اگرچہ اس ضلع کی آبادی میں پاکستان میں پائی جانے والی تمام قومیتیں شامل ہیں ۔

ہمارا خیال ہے کہ یہاں ان قومیتوں کا تناسب ملک میں ان کے اصل تناسب کے مطابق نہیں ہے۔

وجہ یہ ہے کہ یہاں ہندوستان سے آئے ہوئے مہاجرین کا تناسب پاکستان میں ان کی مجموعی آباد ی کے تناسب سے کئی گنا زیادہ ہے۔

مہاجرین، اور ان کے زیرِ اثر دوسری قومیتوں کے افراد، کی خوراک رہن سہن

اور دوسرے معمولاتِ زندگی ملک کے دوسرے علاقوں (پاکستان کی دوتہائی آبادی دیہات کی باسی ہے) سے مختلف ہےں۔

مثال کے طور پر کراچی میں

خواندگی کی شرح، مضر صحت معمولات(جیسے پان کھانا، گٹکا ، مین پوری وغیرہ) اور زیادہ مشقت والے کاموں کا تناسب ملک کے دیگر شہروں سے مختلف ہے۔

اس لیے ہمارے خیال میں

پورے پاکستان میں سرطان کی اصل شرح کراچی سرطان دفتر کی پیش کردہ شرح سے کم ہونی چاہیے؟
مندرجہ بالا اعدادوشمار کو مدنظر رکھتے ہوئے اس بات کا اندازہ کیا جاسکتا ہے

کہ چھاتی کا سرطان پاکستان میں صحت کا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے

جس کی وجہ عام لوگوں میں چھاتی کے سرطان کے متعلق آگاہی کا نہ ہونا ہے

اور دوسرا ہمارے معاشرے اور سماج میں جسم کے پوشیدہ اعضاءکے متعلق اظہارِ خیال کرنا اور گفتگو کرنا نہایت معیوب سمجھا جاتا ہے

اور اس قسم کی کتابوں کو پڑھنا اور لکھنا بھی ہمارے معاشرے میں معیوب سمجھا جاتا ہے،

اگر لوگوں کو چھاتی کے کینسرکے متعلق بنیادی معلومات باہم پہنچادی جائیں تو ہم پاکستان میں

چھاتی کے کینسر کی جلد تشخیص\

اور علاج کے قابل ہو سکتے ہیں جن سے قیمتی جانوں کو بچایا جاسکتا ہے۔

ان بنیادیمعلومات کی آگاہی کے لیے بہت زیادہ تعلیم یافتہ ہونا ضروری نہیں ہے

بلکہ ایک دیہات کی خاتون کو بھی اگر یہ معلومات مہیا کر دی جائیں تو وہ قبل از وقت تشخیص کے قابل ہو کر بروقت اپنا علاج کرواسکتی ہے۔

انڈیا میں شرح تناسب:

سندھ سے ملحقہ بھارتی علاقوں میں بھی چھاتی کے سرطان کی شرح بہت کم ہے،

دیہی علاقوں میں تقریباً نو فیصد جبکہ بمبئی، جو بڑی حد تک کراچی سے مشابہ شہر ہے،

میں اس سرطان کی شرح ۸۲ فیصد ہے ۔
امریکا میں شرح تناسب: امریکا میں شرح اموات کے تناسب سے دل کی بیماری اور فالج کے بعد دوسرا نمبر کینسر سے ہونے والی اموات کا ہے

کینسر کے ہونے کی اصل وجوہات کا پتہ نہیں چلایا جاسکا کہ اس کی اصل وجہ کیا ہوتی ہے؟

لیکن یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے

کہ مختلف عوامل مثلا کیمیکلز، وائرس، شعاعیں، جغرافیائی اور موروثی عوامل وغیرہ اس کی وجہ ہوسکتے ہیں۔

انگلینڈ اور ویلز میں شرح

مغربی ممالک میں ادھیڑ عمر خواتین کے موت کی ایک بڑی وجہ بریسٹ کینسر ہے۔

2010ءمیں دنیا بھر میں 7.5 لاکھ سے 10 لاکھ نئے بریسٹ کینسر کی تشخیص کی گئی۔

مندرجہ بالا حقائق ترقی یافتہ ممالک کے متعلق یں جہاں پر کینرمی مبتلا افراد کی رجسٹری موجود ہے۔

البتہ پاکستان میں یہ سہولت موجود نہیں ہے۔

جس کے باعثہ مارے ملک میں درست اندازہ نہیں لگایا جاسکتا ک کتنے افراد کینسر میں مبتلا وہتے یں۔

انگلستان اورویلز میں ایک اندازے کے مطابق ہر بارہ میں سے ایک خاتون بریسٹ کینسر میں مبتلا ہوتی ہے۔

Share this post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to Posts