چھاتی کے کینسر کاعلاج

Back to Posts

چھاتی کے کینسر کاعلاج

چھاتی کے کینسر کاعلاج

اب سے بیس تیس برس قبل سرطان کا علاج کرنے کے لیے پورا پستان نکال دیا جاتا تھا،
بعدازاں صرف سرطان سے متاثرہ حصے ہی کو نکالا جانے لگا۔
جب کہ باقی ماندہ حصوں کا صفایا کرنے کے لیے تابکاری کی مدد لی جاتی تھی۔
اب جب کہ چھوٹے چھوٹے ٹیومروں کا بھی علاج ہونے لگا ہے
تو اس کے لیے کم سے کم ٹشوز نکال کر خالی رہ جانے والی جگہ پر باقی بچ جانے والے ٹشوﺅں کو ہی ازسرنو ترتیب دینا شروع کردیا ہے۔
لمفی گانٹھوں میں سرطان کے پھیلنے کا پتا لگانے کے لیے نئے طریقے بھی سامنے آگئے ہیں۔
ماضی میں ان ٹیومر کی موجودگی کا پتہ لگانے کے لیے 15تا 20 لمفی گانٹھوں (لمف نوڈز) کو نکال لیا جاتا تھا۔

اب جس ٹشو سے ٹیومر نکالا جاتا ہے

اس میں نیلے رنگ کا ایک سیال داخل کردیا جاتا ہے
اور پھر لمفی نظام میں اس سیال کے آگے بڑھنے کا مشاہدہ کرتے ہیں۔
مختلف مشاہدات اور تجربات کے بعد کچھ معالجوں کے خیال میں کیموتھیراپی بدستور کینسر کا مو ¿ثر ترین علاج ہے،
خاص طور پر ان عورتوںکے لیے جن کے ٹیومر کا حجم دو سینٹی میٹر یا اس سے زیادہ ہو۔
اگرچہ یہ طے کرنا مشکل ہے کہ یہ ٹیومرمہلک ہے یا نہیں تاہم یہ ممکن ہے
کہ اس ٹیومر کے کچھ اثرات خون کے بہاﺅ کے ذریعے جسم کے دوسرے حصوں میں بھی چلے جائیں۔
اعدادوشمار کے مطابق ہر 100 میں سے20 عورتیں، جن کے جسم میں ایسا ٹیومر موجود تھا جو دو سینٹی میٹر حجم رکھتا تھا
مگر لمف نوڈز تک نہیں پھیلا تھا، ان میں سرجری کے 5 تا 10 برس بعد ٹیومر دوبارہ نمودار ہوگیا۔
چھاتی کے کینسر کے علاج کے لیے ماہرین کی ایک ٹیم مل کر کام کرتی ہے۔
جس میں ماہر سرجن، ریڈیوتھراپسٹ اور ماہرِ امراضِ سرطان (آنکولجسٹ) شامل ہوتے ہیں۔
دنیا بھر میں اس بات پر اتفاقِ رائے موجود ہے کہ کینسر کے علاج ایک سنجیدہ اور مشکل مرحلہ ہوتا ہے
اور اس میں صرف ماہر ڈاکٹروں سے ہی رابطہ کرنا چاہیے۔

علاج کے شروع کرنے سے پہلے کچھ ٹیسٹ ضروری ہیں

اور ان ٹیسٹ کے نتائج کی روشنی میں پورے علاج کا پلان ٹیم کے ڈاکٹروں کے باہمی مشوروں کے بعد ہی طے پاتا ہے۔
علاج کے لیے چھاتی کی کینسر کو چار مختلف مراحل میں تقسیم کیا جاتا ہے۔
پہلے اور دوسرے مرحلے کو ابتدائی کینسر کہا جاتا ہے۔
اگر اس مرحلے میں کینسر کی تشخیص اور علاج ہو جائے تو نتائج بہت حوصلہ افزاءہوتے ہیں۔
علاج کے لیے درج ذیل طریقوں کو اپنایا جاتا ہے۔
 چھاتی کے سرطان کے علاج کا انحصار اس بات پر ہے کہ سرطان کتنا پھیل چکا ہے
اور شروع میںہی پتا لگالیا ہے تو آپریشن کے ذریعے گانٹھ کو نکالنا ہی کافی ہوتا ہے
لیکن بعض صورتوں میں پوری چھاتی کو آپریشن کے ذریعے کاٹ دیا جاتا ہے
کبھی کبھی ڈاکٹر دواﺅں اور شعاع ریزی کے طریقے بھی استعمال کرتے ہیں۔
 کوئی بھی نہیں جانتا کہ چھاتی کے سرطان سے کیسے بچا جائے لیکن ہمیں یہ معلوم ہے
کہ اگر اس کی جلد تشخیص اور علاج ہو جائے تو اس سے بچاجاسکتا ہے۔

ایک دفعہ علاج کے بعد اکثر عورتوں کو دوبارہ سرطان کی شکایت نہیں ہوتی۔

یہ دوسری چھاتی میں ہوسکتا ہے یا پھر کبھی کبھی جسم کے کسی اور حصے میں ہوسکتا ہے۔
 ڈاکٹروں کے مطابق چھاتی کے سرطان کی تشخیص میں میمو گرافی نے اہم کردار ادا کیا ہے
اس کی بدولت اب بہت سی عورتوں میں سرطان کا علم ہوسکتا ہے جن کو کبھی اس کا شائبہ بھی نہیں گزرا ہوگا۔
اب عورتوں کے جسم میں موجود سرطان کے چھوٹے چھوٹے خلیوں کا بھی پتا چلایا جاسکتا ہے
لیکن اس کے نتیجے میں ڈاکٹروں پر یہ دباﺅبڑھ رہا ہے کہ وہ سینے کے سرطان میں مبتلا مریضوں کا علاج بھی کریں جوفی الوقت زیادہ موثر نہیں ہے
زیادہ تر مریضوں کے لیے سرطان کا علاج سرجری کے ذریعے ہوتا ہے یا ریڈیو تھراپی اور کیموتھراپی کے ذریعے۔
یہ دونوں طریقے مریضوں کے لیے خاصے تکلیف دہ ثابت ہوتے ہیں چنانچہ انہیں پسند نہیں کیا جاتا۔

 چھاتی کے سرطان کے مریضوں کی ایسی ہی تکالیف کو دیکھتے ہوئے،

ماہرین نے اپنی توجہ اور وسائل زیادہ شدت کے ساتھ اس مرض کی شناخت اور تدارک پر مرکوز کردیے ہیں۔
سرطان کے علاج کے لیے نسبتاً کم تکلیف دہ اور موثر طریقے اب تیزی سے اسپتالوں میں جگہ بناتے جارہے ہیں۔
مثال کے طور پر سرجنوں نے ایسے طریقے اختیار کیے ہیں
جن کے ذریعے صرف ٹیومرکاہی خاتمہ ہوتاہے اور پستان کے صحت مند ٹشو بچالیے جاتے ہیں۔
(ان عورتوں کے لیے جو چھوٹے پستانوں کی حامل ہوتی ہیں۔
یہ اطلاع اہمیت کی حامل ہے کیوںکہ ان کے سینے کے ٹشو پہلے ہی تعداد میں کم ہوتے ہیں۔)
ڈاکٹروں نے ایسے طریقے بھی آزمائے ہیں جن سے چند دنوں میں ہی ٹیومر کو زیادہ درست نشانے کے ساتھ تابکاری کے ذریعے ختم کیا جاتا ہے۔
اب ماضی کی طرح6 ہفتوں کے دورانیے پر مشتمل علاج کی ضرورت نہیں ہے۔

 آپریشن(Operation)

 آپریشن کے ذریعے صرف کینسر کی گٹھلی کو نکال دیا جاتا ہے۔
 لیکن یہ اسی صورت میں ممکن ہے
جب گٹھلی کا سائز کم ہو اور یہ چھاتی میں ایک جگہ پر ہو بغل تک پھیلی ہوئی نہ ہو اور گٹھلی جلد یا پٹھوں کے ساتھ جڑی ہوئی نہ ہو۔
اس طرح ہم پوری چھاتی ضائع ہونے سے بچا سکتے ہیں۔
ایک ماہر سرجن ہی صرف یہ بات آپ کو بتا سکتا ہے کہ آپریشن کس قسم کا ہوگا۔

وہآپ کا تفصیلی معائنہ کرے گا۔

 اگر گٹھلی کا سائز بڑا ہو یا اوپر بیان کی گئی شرائط پوری نہ ہوتی ہوں تو پھر پوری چھاتی آپریشن کے ذریعے نکال دی جاتی ہے۔
مریض کو اس بات کا حق ہے کہ وہ چھوٹے سائز کے ٹیومر میں ہی پوری چھاتی نکالنے والے آپریش کو منتخب کریں،
مریضہ کو چاہیے کہ وہ ایک ماہرانکولیجسٹ سے مشورہ کرے۔
اس کے بعد مریض کا اس کی بیماری کے مطابق کیموتھراپی، ریڈیو تھراپی اور ہارمونز میں سے ایک یا ایک سے زیادہ طریقوں سے علاج مکمل کیا جاتا ہے۔
لہٰذا یہ بہت ضروری ہے کہ ڈاکٹر کی ہدایت پر عمل کیا جائے اور صرف آپریشن کرانے سے یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ علاج ختم ہوگیا ہے۔
بلکہ کیمو تھراپی، ریڈیو تھراپی یا ہارمونز کا کورس مکمل کیا جائے اور اس کے بعد ڈاکٹرکی ہدایت کے مطابق باقاعدگی سے معائنہ بھی کرایا جائے۔

-2 کیموتھراپی (کینسر والی دواﺅں سے علاج)

اس کے لیے کیموتھراپی کی ضرویات ہوتی ہے جوکچھ مواقعوں پر ضروری نہیں ہوتی اور کچھ میں ہوتی ہے۔
-3 ریڈیو تھراپی (شعاعوں سے علاج)
اب سے تیس برس قبل، سرطان کا علاج کرنے کے لیے پورا پستان نکال دیا جاتا تھا۔
بعد ازان صرف سرطان سے متاثرہ حصہ ہی نکالا جانے لگا جب کہ کچھ باقی ماندہ حصوں کا صفایا کرنے کے تابکاری استعمال کی جاتی تھی۔
اب جب کہ چھوٹے چھوٹے ٹیومروں کا علاج ہونے لگا ہے
تو ڈاکٹروں نے کم سے کم ٹشو نکال کر خالی رہ جانےوالی جگہ میں،
باقی بچ جانے والے ٹشوﺅں کو ہی از سر نو ترتیب دینا شروع کر دیا ہے۔

ہارمونز   ہیرسیپٹنHerceptin

ڈاکٹروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ چونکہ ہر مریضہ کے سینے میں موجود ٹیومر کی ساخت الگ ہوتی ہے
لہٰذا ضروری ہے کہ علاج اس کی ضرورت کے مطابق شروع کیا جائے۔
اب ایک علاج یا دوا سب مریضوں کے لیے کارگر نہیں ہوسکتی۔
مثال کے طور پر ڈاکٹروں نے سرطان کے مریض چند عورتوں میں ایک پروٹین HER-2
دریافت کیا ہے جو خاص نوعیت کے ٹیومر کے سبب بنتا ہے۔
اس پروٹین کی افزائش روکنے کے لیے ایک دوا ہیرسیپٹن (Herceptin)
ایجاد کی گئی ہے۔

جو مفید ثابت ہوئی ہے۔

تاہم اس کے مریضاﺅں پر کچھ منفی اثرات بھی سامنے آئے ہیں۔
لہٰذا ابھی اس دوا کے آزادانہ استعمال کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔
البتہ اس ضمن میں تجربات جاری ہیں۔
اب دوا ساز کمپنیاں ہیرسیپٹن سے ملتے جلتے دیگر پروٹین کی افزائش رکوانے کے لیے دوائیں بنانے پر خاص زور دے رہی ہیں۔
توقع ہے کہ آئندہ چند برس میں اس طریقہ علاج میں بھی خاصی پیشرفت ہوجائے گی۔
 سرطان سے متاثرہ خلیوں میں ڈی این اے کی ترتیب کو سامنے رکھتے ہوئے
ڈاکٹر پیش گوئی کر سکیں گے کہ کون سا ٹیومر مزید پھیلے گا اور کونسا نہیں پھیلے گا۔
اس طریقے کے ذریعے ہر مریض کی خاص ضرورت کے مطابق دوائیں تیار کرنا بھی ممکن ہوگا۔
 جب سائنس دانوں کو یہ علم ہو جائے گاکہ ٹیومر کیوں بن رہے ہیں

اور کون سے پروٹین ان کی افزائش کا سبب بن رہے ہیں

تو ان کے لیے ایسی دوائیں بنانا بھی آسان ہوجائے گا جو متاثرہ خلیوں کا گھیراﺅ کر کے انہیں بے جان کردیں۔
ان پر وٹینز کی افزائش کا سلسلہ روک دیں جو ٹیومروں کا سبب بن رہے ہیں۔
 ہارمونز کے ضمن میں مختلف ادویات استعمال کی جاتی ہیںجن کا تعین ایک ماہر

انکولوجسٹ ہی کرسکتا ہے۔

مثلا ٹیموکیسفن، ارمامٹیزلیسا، وغیرہ وغیرہ ان کے مضر اثرات (Side Effects)
بھی ہوتے ہیں لیکن اگر ان کا استعمال ضروری ہوتو ان کو پابندی کے ساتھ ضرور استعمال کرنا چاہیے۔
 تجزیے کے لیے پستان کی بھٹنی (نپل) کے ذریعے ایک بہت چھوٹے سائز کا فائبر آپٹک کیمرا، کینسر سے متاثرہ خلیے اور دودھ کی نالیوں میں پہنچایا جاتا ہے۔
توقع ہے کہ آئندہ دنوں میں اس چیرے کو ہی علاج کے لیے بھی استعمال کیا جاسکے گا۔
 ٹیومر کے علاج کے بارے میںاب ڈاکٹروں کی سوچ میں تبدیل ہورہی ہے۔
نئی تحقیق کا کہنا ہے کہ چھوٹے چھوٹے ٹیومروں کا علاج کرنا ضروری نہیں ہے جب تک وہ بڑھ کر باقاعدہ سرطان میں تبدیل نہ ہو جائیں۔
ماضی میں ہر اس خلیے کو نکال دیا جاتا یا غیر موثر کر دیا جاتا تھا۔
جو ٹیومر سے متاثر نظر آتا تھا مگر اب زیادہ درست اور محدود علاج کا نظریہ فروغ پارہا ہے۔
یہ مضمون احساس انفورمییٹکس پاکستان۔
https://ahsasinfo.com
مزید آگاہی کے لیےؑ ویب پر کتاب کا مطالعہ کیجےؑ

Share this post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to Posts