چھاتی کے کینسر کی تشخیص

Back to Posts

چھاتی کے کینسر کی تشخیص

چھاتی کے کینسر کی تشخیص

اگر آپ کی ڈاکٹر نے چھاتی کے سرطان کی تشخیص کے لیے میمو گرافی کا مشورہ دیا ہے تو ضرور کرائیے۔

اب تک دستیاب کسی بھی دوسرے ٹیسٹ کے مقابلے میں میموگرافی کے ذریعے ٹیومرز (رسولی) کی ابتدائی مرحلے میں نشاندہی ہو جاتی ہے۔

اس تشخیص کے بعد مریضہ کے لیے ممکن ہوتا ہے

کہ وہ علاج کے لیے کیموتھراپی، ہارمونل تھراپی یا سرجری میں سے کسی ایک کا انتخاب کرسکے۔

اور کیا پتا کہ ان میں سے کسی ایک علاج سے آپ کی زندگی محفوظ رہے!

میمو گرافی کیا ہے؟

پستان کا معائنہ ایک قسم کی ایکسرے مشین سے کیا جاتا ہے جس میں ہلکی نوعیت کے ایکسرے استعمال ہوتے ہیں۔

ا طریقے سے بننے والی تصویر کو فلم پر ریکارڈ کرکے ایکسرے کی طرح مشاہدہ کیا جاتا ہے۔

کینسر کے ابتدائی مرحلے میں تشخیص ہی کو اس کا کامیاب علاج تصور کیا جاتا ہے۔

میموگرافی کا کردار اس لحاظ سے بے حد اہم ہے کیونکہ یہ کینسر کی تبدیلی کو معالج یا مریض کے محسوس کرنے سے تقریباً دو سال پہلے محسوس کرلیتی ہے۔
میموگرافی کس حد تک مو¿ثر ثابت ہوتی ہے؟ اس بارے میں طبی سائنس کے ماہرین مختلف رائے رکھتے ہیں۔

ڈنمارک کے سائنسدانوں کا کہنا ہے میموگرافی اس بارے میں غیرمو¿ثر ہے جب کہ امریکی سائنسدان میموگرافی کے حق میں ہیں۔

میموگرافی کے بارے میں تحقیق 1960ءسے جاری ہے۔

ماہرین کہتے ہیں بہت احتیاط سے کی گئی میموگرافی میں بھی اندیشہ ہوتا ہے

کہ کینسر کے دس فیصد مریضوں کا علم نہیں ہوسکے۔

میموگرافی کینسر کی گانٹھوں کاسراغ دیتی ہے جو خاصی بڑھ چکی ہوں۔

میموگرافی کے متعلق یہ بات بھی کہی جاتی ہے

کہ بعض اوقات وہ غلط طور پر کینسر کی نشاندہی کرتی ہے

 

جب کہ مریض کو حقیقتاً کینسر نہیں ہوتا۔

 

لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے

کہ سرطان کا شائبہ رکھنے والی خواتین اس ٹیسٹ سے گریزاں رہیں،

اس ٹیسٹ کی مدد سے سرطان کے 90تا 95فیصد کیسز کا پتا چل ہی جاتا ہے۔
یہ معائنہ چھاتی کے اسکریننگ پروگرام کا نہایت اہم حصہ ہے

اس میں چھاتی کے مختلف پوزیشن میں ایک مخصوص ایکسرے فلم پر ایکسرے کیے جاتے ہیں

جس سے کینسر کی موجودگی کا ابتدائی اسٹیج میں پتہ چلایا جاسکتا ہے۔
چھاتی کے سرطان کا پتہ لگانے (تشخیص) کے لیے جو عمل کیا جاتا ہے اسے میمو گرافی کہتے ہیں۔
میموگرافی چھوٹی نالیوں میں سرطان (Dcis)

کی تشخیص بھی آسان کام نہیں کیوں کہ یہ واضح طور پر نظر نہیں آتے

بلکہ ٹیومر سے متاثرہ خلیوں کی خاص ترتیب سے ہی ان کی موجودگی کا علم ہوتا ہے۔

اس ترتیب کو واضح طور پر پہنچاننے کے لیے کبھی ایک

یا کبھی کبھی دو مرتبہ بھی میموگرافی کی ضرورت پیش آتی ہے۔

تحقیق

جدید تحقیق کے مطابق چھاتی کے کینسر کا معلوم کرنے کے لیے

دوسرے طریقوں کی نسبت خون کا ٹیسٹ زیادہ حساس اورکامیاب ثابت ہوتا ہے۔

اس تحقیق میں تجربے کے لیے 345 خواتین کے خون کا ٹیسٹ کیا گیا

جن میں سے 95فیصد کی درست تشخیص ممکن ہوئی۔

اس ٹیسٹ کے دوران خون میںشامل کینسر کے کئی نشانات (نشانیوں کو دریافت کرنے کے لئے مختلف پروٹینز کی پیمائش کی جاتی ہے) سامنے آئے۔

ان محققین نے خون کا جو ٹیسٹ دریافت کیا ہے

اس میں خون کے اندر پروٹین مخصوص ہوتے ہیں۔

جب کہ دوسری پروٹینز مختلف قسم کے کینسر میں کم زیادہ ہوتی رہتی ہیں

اوریہی جلن اورٹیومر کے لیے خون کی نئی نالیوں کی تحقیق کااشارہ ہوتی ہیں۔

محققین کا خیال ہے کہ ٹیسٹ میںپروٹین کی آمیزش کی جو ترتیب نظر آتی ہے

اگراس کوتبدیل کرکے دیکھا جائے تو چھاتی کے کینسر ے علاوہ کینسر کی دیگراقسام کے متعلق بھی پتا چلایا جاسکتا ہے۔

اس ٹیسٹ کی بدولت مہلک (Malignant) اور معمولی (Benign)

کینسر کا معلوم کیا جاسکتا ہے

اور کینسرکے علاج کو مانیٹر بھی کیا جاسکتا ہے۔

یہ تحقیق ”جرنل آف پروٹیوم ریسرچ رپورٹس“ میںشائع ہوئی تھی۔

اسکریننگ (Screening)

اسکریننگ پروگرام کسی بھی بیماری کی جلدی تشخیص اور اس کا سدباب کرنے کے لیے ترتیب دیا جاتا ہے

تاکہ علاج کے نتائج حوصلہ افزا ہوں۔

چھاتی کے کینسر کی علامات ظاہر ہونے سے پہلے تشخیص کرنے کے ترقی یافتہ ممالک میں ایک جامع اسکریننگ پروگرام موجود ہے۔

اسکریننگ کے فوائد

باقاعدگی کے ساتھ اسکریننگ کرنے سے چھاتی کے کینسر کی موجودگی کا علامات ظاہر ہونے سے دوسال پہلے تک پتہ چلایا جاسکتا ہے۔
 جلد تشخیص کی بدولت ابتدائی مراحل میں آپریشن کے ذریعے صرف گٹھلی نکالی جاسکتی ہے

اس طرح پوری چھاتی ضائع ہونے سے بچائی جاسکتی ہے۔
 جلد تشخیص اور علاج کی بدولت 90فیصد سے زیادہ خواتین پانچ سال سے کہیں زیادہ نارمل زندگی گزارتی ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں

 

باقاعدہ چھانٹی کے پروگرام(اسکریننگ) صحت کی تعلیم اور چھاتی کے کینسرکے بارے میں معلومات کوعام کرکے اس کی تشخیص جلد کر لی جاتی ہے۔

اس لیے ان ممالک میں اس کینسر کے بعد از علاج نتائج بہت بہتر ہوگئے ہیں

اور اس کینسر کے نتیجے میں ہونے والی شرح اموات کا تناسب پہلے نمبر سے کم ہو کر دوسرے نمبر پرآگیا ہے۔
چھاتی کی اسکریننگ ہر خاتون کو درج ذیل شیڈول کے مطابق کرانی چاہیے
-1 18 سے 40سال کی عمر تک کی خواتین کے لیے :

 چھاتی کا ہر ماہ خود معائنہ ( Self Breast Examination)

 ڈاکٹر سے ہر تین سال بعد معائنہ کرانا۔

-2 40 سال سے زیادہ عمر کی خواتین کے لیے:
 چھاتی کا ہر ماہ خود معائنہ کرنا۔ (Self Breast Examination)
 ڈاکٹر سے ہر سال معائنہ کرانا۔
٭ میموگرام (Mammogram) ہر دو سال بعد 50سال کی عمر تک۔
 میمو گرام (Mammogram) ہر سال 50 سال کی عمر کے بعد۔

بائیوپسی(Biopsy)

یہ جاننے کے لیے کہ کس عورت کو چھاتی کا سرطان ہے۔

اس طریقے میں سرجن چھاتی کی پوری گانٹھ یا اس کا ایک حصہ سوئی یا نشتر کے ذریعے نکال لیتا ہے

اور اسے معائنہ کے لیے لیبارٹری بھیجا جاتا ہے۔

اس طریقہ کو بائیوپسی کہا جاتا ہے۔
بائیوپسی کبھی کبھی بائیوپسی بھی ایک ممکنہ طریقہ سمجھتی جاتی ہے جس میں پستان کے کچھ حصے کا تجزیہ کیا جاتا ہے۔

کچھ ڈاکٹر بائیوپسی کے لیے پستان کا کچھ حصہ نکالنے کو پسند نہیں کرتے کیوںکہ ان کے خیال میں

یہ چھوٹی موٹی سرجری ہوتی ہے جسے تشخیص کے لیے نہیں بلکہ علاج کے لیے مخصوص رہنا چاہیے۔

البتہ بعض ڈاکٹروں کے خیال میں ایسا کرنا ضروری ہوتاہے

کیوں کہ بائیوپسی کے ذریعے بھی 25فیصد مریضوں کے بارے میں سرطان کی موجودگی کا علم ہوتا ہے۔

ریڈیائی لہریں

لمفی انٹھوں میں سرطان کے پھیلنے کا پتا لگانے کے لیے بھی کئی ایک نئے طریقے سامنے آچکے ہیں۔

ماضی میں ان میں ٹیومر کی موجودگی کا پتا لگانے کے لیے 15 تا 20لمفی گانٹھوں (لمف نوڈز) نکال لی جاتی تھیں۔

اب ڈاکٹریوں کرتے ہیں کہ جس ٹشو سے ٹیومر نکالا جاچکا ہو، وہاں ایک نیلے رنگ کا سیال داخل کرتے ہیں

اور پھر لمفی نظام میں اس سیال کے، آگے بڑھنے کا مشاہدہ کرتے ہیں۔

تابکاری

کچھ ڈاکٹروں نے سینے کے متاثرہ حصوں میں تابکاری سے بھرے ہوئے

چھوٹے چھوٹے غبارے رکھ کر انہیں بے جان کرنے کا تجربہ بھی کیا ہے۔

دس منٹ روزانہ ہونے والے اس تجربے کو پانچ یوم تک دوہرانے سے مفید نتائج برآمد ہوئے ہیں۔
مریضاﺅں کو خاص حد تک شفا ہوئی ہیں دیکھا گیا ہے

کہ یہ سیال سب سے پہلے ان گانٹھوں میں ہی داخل ہوتا ہے جن کے آگے چل کرٹیومر سے متاثرہ ہونے کا اندیشہ ہو۔

گانٹھوں یا ان نوڈز کو بھی نکال دیا جاتا ہے اور کچھ عرصہ تک باقی نوڈز کا مشاہدہ کیا جاتا ہے۔

اگر ان میں سرطان جنم نہ لے توپھر اس بات کے امکانات بڑھ جاتے ہیں کہ اب لمفی گانٹھوںمیں آئندہ سرطان نہیں پھیلے گا۔

Share this post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to Posts