Back to Posts
Back to Posts
30Aug
ڈینگی ہو یا ملیریا یا کوئی اور وبائی مرض، اس پر قابو اور تدارک کے لئے انتظامی اور سرکاری سطح پر اقدام کے ساتھ عوام کو بھی اپنی ذمہ داریاں سمجھنے اور جاننے کی ضرورت ہے۔
دنیا کے ان علاقوں میں جہاں مختلف وجوہ کے باعث مختلف وبائی امراض پھیلنے کا امکان رکھتے ہیں، حکومت اور عوام کا تعاون حیران کن نتائج سامنے لایا ہے۔
یوں بھی مفاد عامہ کے کاموں میں عوام کی شمولیت ضروری قرار دی جاتی ہے کہ اس کے بغیر نہ تو بہتری کی اُمید کی جاسکتی ہے اورنہ ہی صحت کو لاحق خطرات ٹل سکتے ہیں۔
پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ عوام کی صحت کے لئے ضروری اقدام اسی صورت ممکن ہوتے ہیںجب عوام ان کی اہمیت و افادیت سمجھیں اورمستقل مزاجی کے ساتھ رہنما اصولوں پر کاربند رہیں۔
عوام کو صحت کی سہولیات فراہم کرنا حکومت کا فرض ہے لیکن خرابیوں کے بنیادی اسباب دور کرنا عوام کی مدد اور تعاون کے بغیر ممکن نہیں۔
عوام کی صحت اورزندگی کے لئے خطرہ بننے والے بیش تر وبائی امراض کا تعلق حفظان صحت کے اصولوں سے ہے۔
عوام کو یہ اصول سمجھنا چاہئیں۔ اس مقصدکے لئے عالمی ماہرین ایسے صحت کارکنوںا ور عوام دوست کی دستیابی پر زوردیتے ہیں جو شہروں، قصبات اور دیہی علاقوںمیں کام کریں اورماحول کی مناسبت سے لاحق خطرات کینشاندہی کرنے کے ساتھ وہ اقدام یقینی بنائیں جو سب کی صحت کے لئے یقینی قرار پاتے ہیں۔
اس کے ساتھ یہ بھی لازمی ہے کہ ہر جگہ حکمراں طبقہ بھی اپنی ذمہ داریاں ادا کرے اور صحت کے لئے کام کرنے والوں کو وہ بنیادی سہولتیں فراہم کرے جن کے بغیر کامیابی ممکن ہی نہیں ہے۔
وبائی مرض جو بھی ہو سازگارماحول ملتے ہی اپنا رنگ دکھاتا ہے۔ ڈینگی کی حالیہ (2011ئ) مثال ہمارے سامنے ہے۔
اس کی شدت دیگر صوبوں کے مقابلے میں پنجاب اور خصوصاً لاہور میں غیر معمولی ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ یہاں مچھروںکی افزائش کے لئے ماحول نہایت سازگار ہے جبکہ عوام کی بڑی تعداد مچھروں سے بچاﺅ کے لئے ضروری اقدام پر سنجیدگی سے عمل پیرا نہیں رہے۔
ڈینگی کے وبائی صورت اختیار کرنے کے بعد ڈینگی میں مبتلا ہونے والوں کے علاج کے لئے بڑے پیمانے پر اقدام اپنی جگہ لیکن مچھروں کی افزائش کی روک تھام اور مچھروں کے کاٹنے سے بچنے کے لئے سرکاری اورنجی سطح پر اقدام بھی نظرانداز نہیں کئے جاسکتے۔
ڈینگی ہمارے لئے نیا خطرہ نہیں، نہ ہی اس نے پہلی بار ہم پر وار کیا ہے۔
یہ اس سے قبل کراچی میں بھی پھیل چکا ہے جس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ کراچی بھی خطرے کی زد میں ہے اور اس کا اظہار بھی ہوا ہے کہ یکے بعد دیگرے شہر کے مختلف حصوں سے ڈینگی کے مریض سامنے آئے اور طبی ماہرین نے اس اعتبار سے خطرناک دورانیئے کی نشاندہی کرتے ہوئے حفاظتی اقدام پر زور بھی دیا ہے۔
اب اہمیت اس بات کی ہے کہ سرکاری سطح پر اس حوالے سے کیا اقدام کئے جاسکتے ہیں جبکہ عوام خود اپنے تحفظ کے لئے کیا کچھ کرسکتے ہیں۔
واضح رہے کہ یہ دو الگ الگ کام نہیں بلکہ انہیں ایک دوسرے سے مربوط ہونا چاہئیے۔
عوام کواپنے مفاد میں سوچنا اور عمل کرنا چاہئیے۔
اس کی کیا صورتیں ہوسکتی ہیں؟ ایک صورت یہ ہے کہ جب بھی شہر میں مچھر ماراسپرے کی مہم شروع ہو ہر علاقے کے بااثر اور ذمے دار افراد (اور عام لوگ بھی) اس میں دلچسپی لیںاوراپنے اپنے علاقوںمیں اسپرے یقینی بنائیں۔
عام طور پر اس قسم کے مہمات کی ابتداءمیں عوام کو اشتہارات کے ذریعے مطلع کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے علاقے میں دی گئی تاریخوں میں اسپرے نہ ہونے پر درج شدہ فون نمبرز پر شکایت درج کرائیں۔
عموماً لوگ اسے نظرانداز کردیتے ہیں۔
شاید انہیں ڈینگی کے خطرے کا ادراک نہیں یا پھر وہ اس کی زد میں آنے سے اب تک بچے رہنے کو ہی کافی جانتے ہیں۔
آئیے مختصراً جائزہ لیتے ہیں کہ مختلف وبائی امراض میں عوام کیا کرسکتے ہیں اور حکومت کو کیا کرنا چاہئیے۔
مچھروں کے ذریعے پھیلنے والے یہ دو خطرناک امراض ہیں جو خاص طور پر مچھروں کی افزائش کے لئے سازگار ماحول رکھنے والے علاقوں میںخطرناک صورت اختیار کرسکتے ہیں۔
ضروری ہے کہ ان امراض کے پھیلنے کا انتظار نہ کیا جائے اورخطرے کی مناسبت سے اقدام کئے جائیں۔
اپنے گھروں کو مچھروں سے محفوظ بنائیں۔
اپنے اطراف میںمچھروں کی افزائش کے لئے موزوں جگہوں (ٹھہرے ہوئے صاف پانی، پانی کے جوہڑ، گندگی کے ڈھیر وغیرہ) کو قائم نہ رہنے دیں۔
مچھروں کے سیزن میںاضافی اقدام کریں جیسے مچھردانی، مچھر بھگاﺅ لوشنز اورکوائل وغیرہ کا استعمال، محفوظ کیمیائی اسپرے وغیرہ
خطرے کی علامات سمجھیں اور علامات سامنے آتے ہی مراکز صحت جا کر عاج ممکن بنائیں۔
مچھروں کے خاتمے کے لئے خصوصی پروگرام پر مستقل مزاجی سے عمل کرے۔
مچھروں سے تحفظ کے لئے ضروری سامان کی سستے داموں فراہمی۔
ڈینگی اور ملیریا کے خطرات سے آگاہی کے اقدام۔
پُرخطر زمانے میں ضروری علاج کی سہولیات اور حفاظتی اقدام۔
اسہال اور ٹائیفائیڈ کی وجہ سے بچوں کی ہلاکت کہیں بھی ہوسکتی ہے۔
دنیا بھر میں اس طرح مرنےوالے بچوں کی تعداد خاصی لرزہ خیز ہے۔
ان امراض کی وجہ آبی آلودگی ہے جو غیر محفوظ آب رسانی کے نظام کے باعث وسیع آبادی کے لئے خطرناک بن جاتی ہے۔
یقینی بنائیں کہ آب رسانی کا نظام اطمینان بخش اور محفوظ ہو۔
برسات کے موسم اورگرما کی ابتداءمیں پینے کے صاف پانی کی فراہمی۔
صت عامہ کے لئے حکومت کو کیا کرنا چاہئیے۔
اس بارے میں عالمی ماہرین کی رہنمائی ملتی ہے جبکہ مختلف عالمی اداروں نے دنیا بھر کے جائزے کے بعد مختلف ممالک کے ماہرین کے تعاون سے صحت عامہ کے لئے عوام کے فارئض اور ذمہ داریوں کا تعین بھی کیا ہے جبکہ ان کی مرتب کردہ رپورٹس میں حکومت اور عوام کے تعاون سے صحت کے شعبے میں آنے والی غیرمعمولی تبدیلیوں کی قابل عمل مثالیں بھی ملتی ہیں۔
مختصراً یہ کہا جاسکتا ہے کہ صحت صرف حکومت کا مسئلہ نہیں جبکہ وسائل کی کمی کے باوجود عوامی قوت کے مو ¿ثر اور موزوں اقدام اٹھائے جاسکتے ہیں۔
ان میں ایک اہم قدم یہ ہے کہ ہر سطح پر عوام میں صحت کا شعور اُبھارا جائے، انہیں مقامی افراد کے ذریعے صحت مند زندگی کی افادیت سمجھائی جائے اور وہ سادہ مگر مو ¿ثر طریقے سمجھائے جائیں جن پر عمل ان کی روزمرہ زندگی کو بہتر اور صحت بنانے کے ساتھ انہیں سنگین وبائی امراض سے بھی تحفظ فراہم کرتا ہے۔
Leave a Reply