ملیریا اور حاملہ خواتین
حاملہ خواتین کے لئے ملیریا انتہائی سنگین امکانات رکھتا ہے۔
ماضی میں ہونے والی مختلف تحقیقات کے مطابق ملیریا حاملہ عورتوں کے لئے انتہائی خطرناک ثابت ہوتا ہے۔
ملیریا کے باعث ہونے والی اموات میں عورتوں کی بڑی تعداد حاملہ ہوتی ہے۔
ملیریا کی شدت رکھنے والے علاقوں میں حمل کے ابتدائی چار تا پانچ ماہ عورت کے لئے خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔
عموماً پہلی بار حاملہ ہونے والی خواتین ملیریا کا آسان ہدف ہوتی ہیں جبکہ ایسی ملیریا زدہ عورتیں تیز بخار یا جاڑے کا شکار نہیں ہوتی ہیں لہٰذا ایک معالج کے لئے یہ اندازہ لگانا ممکن نہیں ہوتا ہے کہ وہ ملیریا میں مبتلا ہیں۔
اس اعتبار سے بھی ملیریا، ان عورتوں کے لئے خطرناک ہوتا ہے۔
حاملہ عورت کے لئے ملیریا قلتِ خون کا سبب بن جاتا ہے۔
ایسی عورتیں زچگی کے دوران اخراج خون کی زیادتی پر ہلاک بھی ہوسکتی ہےں۔
جن ممالک میں قلت خون کا عارضہ عام ہے، ملیریا عورتوں کی زندگی اور صحت کو لاحق ایک سنگین خطرہ ہے کہ اس طرح ان کے اندر خون کی کمی اور شدید ہوجاتی ہے۔
خصوصی اقدامات
عالمی ادارہ صحت نے حاملہ خواتین کو ملیریا سے بچانے کے لئے خصوصی اقدامات پرزور دیا ہے جن میں ترجیح علاقے سے مچھروں کے خاتمے دی گئی ہے۔
ان اقدامات کی روشنی میں ضروری ہے کہ۔
جن علاقوں میں کم عمری کی شادی عام ہے وہاں پیچیدگیوں کے امکانات بڑھ جاتے ہیں ایک تجویز یہ بھی ہے کہ ملیریا زدہ علاقوں میں ملیریا کا تشخیصی ٹیسٹ لڑکیوں اور عورتوں کے لئے ممکن بنایا جائے تاکہ شادی اور حمل سے پہلے ملیریا زدہ عورتوں کا علاج کیا جاسکے۔
ناقص غذائیت اورخون کی کمی کے ساتھ ملیریا پروان چڑھتے حمل کے لئے بھی خطرناک ثابت ہوتا ہے۔
ایسی عورتوں میں وقت سے پہلے ولادت، بچے کی کم وزنی ممکن ہے۔
ملیریا زدہ علاقوں میں یا ملیریا کی شدت کے زمانے میں پہلی بار حاملہ ہونے والی خواتین کا خون ٹیسٹ کرکے ان کے ملیریا سے محفوظ ہونے کا یقین کیا جائے۔
جو ملیر یا زدہ ہوں انہیں فولاد اور فولک ایسڈ کے ساتھ ملیریا سے بچاﺅ کی ادویات بھی دی جائیں۔
ماہرین حمل کے ابتدائی زمانے میں خواتین کو ملیریا کی علامات نہ ہونے پر بھی ملیریا کی ادویات دینے کی سفارش کرتے ہیں۔
ملیریا کے زمانے میں عورتوں کو ملیریا سے محفوظ رکھنے کے لئے ادویات استعمال کرائی جائیں ۔
خطرناک کیوں؟
حاملہ خواتین کی قوت مدافعت کی وجہ سے کمزور نوعیت کا ملیریا جسم میں خون کی قلت یا کمی کا سبب بن جاتا ہے جو اکثر اوقات زچگی کے وقت تک شدید قلت خون کی صورت اختیار کرلیتا ہے اور زچگی کے دوران زیادہ خون کے اخراج کی وجہ سے اس کی جان خطرے میں پڑ جاتی ہے۔
دوران حمل یوں بھی خواتین مختلف قسم کے انفیکشن کی زد میں ہی رہتی ہیں، کیونکہ نو عمری کی وجہ سے قوت مدافعت یا تو پوری طرح نمو نہیں پاتی یا پھر حمل کی وجہ سے اس میں کچھ تبدیلیاں رونما ہوجاتی ہیں۔
ملیریا بھی ان میں شامل ہے۔ اس وجہ سے حاملہ کی صحت کمزور ہوکر اس کی موت کا سبب بن سکتی ہے، خاص طور پر اس کی وجہ سے پیدا ہونے والی خون کی کمی بہت خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔
یوں بھی گرم ملکوں کی خواتین میں فولاد کی کمی کی وجہ سے خون کی قلت کا عارضہ بہت عام ہے۔
ملیریائی علاقے کی 70 سے 80 فیصد خواتین خون کی کمی کا شکار رہتی ہیں۔
اس صورت حال کی موثر تدبیر یہ ہے کہ ان علاقوں میں ملیریا کو قابو میں رکھا جائے۔ مثلاً ان کی افزائش کے مقامات تباہ کئے جائیں اور ان علاقوں کی خواتین میں فولاد اور فولک ایسڈ کا استعمال عام کیا جائے تاکہ وہ قلتِ خون سے محفوظ رہیں۔
دافع ملیریا دواﺅں کا استعمال
ان علاقوں کی حاملہ خواتین کو فولاد اور فولک ایسڈ کے علاوہ دافع ملیریا دوائیں بھی استعمال کرانی چاہئیں۔
اس مرض کی علامات موجود نہ ہوں پھر بھی ان دواﺅں کا استعمال ضروری ہے۔
یہ دوائیں حمل کے ابتدائی دنوں میں استعمال ہونی چاہیئں، کیونکہ یہ جنین کے نمو کا زمانہ ہوتا ہے۔
حمل کے بعد کے مراحل میں ان دواﺅں کے اثرات محدود ہوجاتے ہیں۔
کم عمر حاملہ خواتین کے لیے ملیریا اور خون کی کمی سے پیچیدگیوں کے خطرات بڑھ جاتے ہیں، کیونکہ خود ان کے نمو کا عمل مکمل نہیں ہوتا ہے۔
حمل کی وجہ سے ان کے عمل نمو اور جنین کے درمیان غذائیت کی تکمیل کے لیے مقابلہ ہونے لگتا ہے۔
اس کی وجہ سے زچگی کے وقت پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں۔
ملیریا والے علاقوں کی تمام شادی شدہ اور غیر شادی شدہ لڑکیوں کے جسم میں ملیریا کے جراثیم کا کھوج لگانا بھی ضروری ہے۔
اس طرح ملیریا کے علاوہ ان میں کمی خون کا کھوج بھی لگ جائے گا جس کا ان کی شادی اور حاملہ ہونے سے پہلے تدارک کیا جاسکتا ہے۔
حمل سے پہلے ہی نقصِ تغذیہ، قلتِ خون اور ملیریا کی شکار خواتین حاملہ ہوکر ایک صحت مند جنین کی پرورش سے قاصر رہتی ہیں جس کی وجہ سے بسا اوقات ان کے ہاں وقت سے پہلے ہی ولادت ہوجاتی ہے اور خاص طور پر پہلے بچے کا وزن بہت کم ہوتا ہے۔
اس لیے یہ ضروری ہے کہ اس علاقے کی خواتین کو ملیریا سے محفوظ رکھا جائے۔
آج کل اس مقصد کے لیے ہفتے میں ایک بار کلوروکوئن اور روزانہ پروگوانل استعمال کرائی جاتی ہے۔
یہ دونوں دوائیں محفوظ سمجھی جاتی ہیں، لیکن چونکہ ملیریا کے جراثیم کوروکوئن کا مقابلہ کرنے لگتے ہیں اس لیے دیگر دوائیں بھی استعمال کرائی جاتی ہیں۔ ایک مفید مشورہ یہ بھی ہے کہ حاملہ ہونے کے بعد وہ خواتین جو ملیریا سے محفوظ علاقوں میں رہتی ہیں ملیریا زدہ علاقوں میں نہ جائیں۔
Leave a Reply