Malaria

Back to Posts

Malaria

ملیریا کا پھیلاﺅ

(Malaria)


برسات کے بعد مچھروں کی بہتات انہونی بات نہیں حالانکہ عام دنوں میں بھی گندگی کے ڈھیر غلیظ پانی کے جوہڑ ان کی افزائش کے گڑھ ہوتے ہیں۔

 ایک اور اہم بات یہ بھی ہے کہ صاف پانی کے مچھر بھی اپنا وجود رکھتے ہیں، طبی ماہرین کے مطابق یہ ان مچھروں سے زیادہ خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں جن کی تعداد دنیا بھر میں پائے جانے والے تین ہزار چار سو اقسام کے مچھروں میں انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے یعنی صرف چند قسم کے مچھر ہی انسان دشمن ہیں، اس کے لئے سنگین خرابیوں اور ہلاکت کا سبب بن سکتے ہیں، بقیہ صرف اپنی ضرورت کے تحت خون چوستے ہیں اور انسان کو بے آرام کرتے ہیں۔

 مچھر کے ذریعے پھیلنے والا ”ملیریا“ وہ ہلاکت خیز مرض ہے جس سے نجات کے لئے عالمی سطح پر ہونے والی کوششوں کی ناکامی کا اعتراف گذشتہ صدی کے آخری عشرے میں کرلیا گیا تھا لیکن مچھر کے خلاف انسان کی یہ جنگ بدستور جاری ہے جس میں کئی اعتبار سے مچھر ہی حاوی نظر آتا ہے مثلاً ترقی یافتہ ممالک نے مچھر اور ملیریا کے خاتمے کے لئے سالانہ ساٹھ سے ستر ملین ڈالر خرچ کئے مگر ملیریا اب بھی اپنا وجود رکھتا ہے۔

 ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک میں اس حوالے سے صورتحال بہت ہی سنگین ہے۔ اس کیایک مثال افریقہ ہے جہاں گذشتہ صدی کے اختتام پر ملیریا کے باعث ہونے والی اموات سالانہ دس لاکھ تھیں جن میں کمی آنے کے امکانات آئندہ بھی نہیں ہیں۔
ان دنوں ہر طرف مچھروں کی بھرمار ہے۔ 

ملک کے مختلف حصوں میں ملیریا کے وبائی صورت اختیار کرنے کی اطلاعات عام ہیں جبکہ ملیریا سے اموات بھی ہورہی ہیں۔ یہ وقت وبائی علاقوں میں خصوصی اقدامات اٹھانے کے ساتھ اب تک محفوظ علاقوں میں حفاظتی اقدامات اٹھانے کا ہے۔

 اس ضمن میں سرکاری سطح پر اقدامات ضروری اور مطلوب ہیں۔

 دوسری طرف ملیریا سے بچاﺅ کے لئے عوامی سطح پر کوششوں کے فروغ کی ضرورت بھی ہے۔

 لوگوں میں یہ شعور پیدا کیا جائے کہ وہ ”صحت“ کی اہمیت سمجھیں۔

 صفائی کے اصولوں پر عمل کریں اور اپنی حفاظت کے لئے ان تمام حفاظتی تدابیر کو اپنائیں جو انہیں سنگین خطرات سے محفوظ رکھنے کی ضامن ہیں۔

یہ کہنا غلط نہیں ہے کہ انسان کسی بھی دور میں مچھر سے نجات نہیں پاسکا۔

اس کی بہت سی وجوہات ہیں مثلاً کسی بھی عہد میں یہ ممکن نہیں ہوا کہ مچھروںکے خلاف دنیا بھر میں جنگ لڑی جاسکے۔

 ہر دور میں مچھروں کے خاتمے کے لئے چند ممالک نے ٹھوس منصوبہ بندی کے ساتھ مہمات چلائیں۔

 مگر وہ بھی مچھروں سے مکمل نجات حاصل نہیں کرپائے۔
پھر دنیا کے ایسے کئی خطے ہیں جہاں مچھر بے تحاشہ پیدا ہوتے ہیں لیکن ان کے خاتمے کے لئے کوئی کوشش ہی نہیں کی گئی اور شاید کچھ غریب اور پسماندہ علاقوں میں تویہ ممکن ہی نہیں۔

ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ کیا کوئی ملک یا خطہ مچھروں کا خاتمہ کرکے ملیریا سے محفوظ ہوسکتا ہے؟

 بدقسمتی سے اس کا جواب نفی میں ہے کہ موجودہ عہد میں انسانوں کینقل و حرکت نے اسے نا ممکن بنادیا ہے جبکہ مچھروں کے لئے تو سرحدیں کوئی وجود ہی نہیں رکھتی ہیں۔

 جب تک ملیریا پھیلانے والے مچھر دُنیا میں باقی ہیں ملیریا بدستور موجود رہے گا ماضی کے تجربات اس کی تصدیق کرتے ہیں کہ ایک مرحلہ وہ بھی آیا تھا جب ادویات کے بھرپور استعمال کے بعد انسان کو یقین ہوچلا تھا کہ شاید اب دنیا سے ملیریا ختم ہوجائے گا مگر اس کی یہ خوش گمانی بہت ہی جلد ختم ہوگئی۔

 ان برسوں میں مچھروں نے ان ادویات کے خلاف مزاحمت حاصل کرلی تھی لہٰذا اب وہ ماضی کے مطابق زیادہ خطرناک اور طاقتور بن چکے ہیں۔

 یہی وجہ ہے کہ اکیسویں صدی میں بھی ملیریا انسانی صحت کے لئے ایک بڑا خطرہ ہے۔

 بیسویں صدی کے اختتام پر عالمی ادارہ صحت کے مرتب کردہ اعدادوشمار میں کوئی خاص فرق نہیں پڑا ہے جن کے مطابق دنیا بھر کے چالیس فیصد انسان اس کی زد میں ہیں۔

 ہرسال ایک سو ملین افراد ملیریا میں مبتلا ہوتے ہیں جبکہ ملیریا کی شدت لگ بھگ دس لاکھ افراد کی جان لے لیتی ہے۔

ملیریا اور دیگر ممالک

یوں تو مچھر پوری دنیا میں اپنا وجود رکھتے ہیں لیکن دنیا کے کچھ حصّے مچھروں کی افزائش کے لئے سازگار فضاءاور ماحول رکھتے ہیں۔

 ان علاقوں کا موسم اور ماحول مچھروں کے خاتمے کے لئے مستقل اقدامات چاہتے ہیں۔ زراعت پر انحصار کرنے والے ایشیائی ممالک، (خصوصاً جہاں دھان کی کاشت ہوتی ہے)۔

 افریقہ اور لاطینی امریکہ کے ساحلی علاقے، دلدلی خطے، صحت وصفائی کے بنیادی نظام سے محروم آبادیاں مچھروں کی افزائش کے باعث ملیریا کی زد میں ہیں۔
ملیریا تقریباً ہر جگہ اپنا وجود رکھتا ہے لیکن کچھ خطوں میں اس کی شدت لرزہ خیز ہے افریقہ کے گرم و مرطوب خطے کے ممالک ان میں سرِ فہرست ہیں جہاں کئی عشروں سے ملیریا پانچ برس سے کم عمر بچوں کی موت کا ایک نمایاں سبب ہے جبکہ اس کی زد میں بالغ افراد کے آنے کے باعث معیشت کو بھاری خسارہ برداشت کرنا پڑتا ہے

 اگر ملیریا کے باعث ہونے والے نقصان پر کنٹرول ہی حاصل ہوجائے تو یہ ایک بڑی کامیابی ہوگی لیکن دستیاب اعدادوشمار کے مطابق جانی و مالی نقصان میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔

 اس کی تصدیق ایک رپورٹ سے ہوتی ہے جس کے مطابق ماضی میں 20برس ملیریا کے خلاف ایشیاءاور جنوبی و شمالی امریکہ میں بھرپور انداز سے مہم چلانے کے باوجود ملیریا کی شدت میں ہر برس اضافہ ہوا ہے جو یقینا تشویشناک بات ہے۔

ملیریا اورپاکستان

ملیریا کی شدت پاکستان میں بھی ہے۔
 ملیریا کے باعث ہمارے ملک میں ہر سال تقریباً پچاس ہزار افراد مرجاتے ہیں۔ 

پاکستان میں موسمی حالات مچھروں کی افزائشکے لئے سازگار ہیں۔ دیہی اور شہری علاقوں میں عمومی گندگی، برسات کے موسم میں گندے پانی کے جوہڑ، کوڑے کرکٹ کے ڈھیر اور صحت و صفائی کا فقدان ملیریا کا معاون ہے۔

 ملیریا بلاشبہ ایک جان لیوا اور خطرناک مرض ہے لیکن ہمارے معاشرے میں لوگوں کی اکثریت یہ باور کرنے کے لئے دہنی طور پر آمادہ ہی نہیں ہے۔

 لوگوں میں علاج سے غفلت، دوا کی دستیابی کے باوجود اس کا نامکمل استعمال عام سی بات ہے۔

 لوگوں کی اکثریت صحت و صفائی کے بنیادی مفہوم سے لاعلم ہے۔

 بیشتر لوگ اپنے گھر کو تو صاف ستھرا رکھتے ہیں لیکن گھر کے اطراف کی صفائی کو کوئی اہمیت نہیں دیتے ہیں۔
حالانکہ ارد گرد کی گندگی، کچرے کے ڈھیر اور گندے پانی کے جوہڑ مچھروں کی افزائش کا ذریعہ بنتے ہیں اور یہی مچھر صاف ستھرے گھروں میں بھی داخل ہوکر لوگوں کو ملیریا زدہ کرتے ہیں۔

ملیریاایک بار پھر شدت اختیار کررہا ہے

ملیریا سے تحفظ آسان اور ممکن ہے لیکن اس کے باوجود گئے برسوں میں ملیریا کے ازسرنو پھیلاﺅ اورشدت کے بعد اس بات کا امکان بھی بڑھ رہا ہے کہ ملیریا سے محفوظ گنتی کے ممالک بھی اس کی زد میں آسکتے ہیں۔

ملیریا کی شدت میں اضافے کی بہت سی وجوہات ہیں مثلاً

1)  عالمگیر سطح پر ملیریا کے خلاف مشترکہ مہم کی عدم موجودگی ۔

2)  ماحولیاتی تبدیلیاں جن کے باعث مچھروں کی افزائش بڑھی جیسے جنگلات کا 
مسلسل کٹاﺅ اور انسانی آبادیوں میں اضافہ جس نے ماحولیاتی تناسب کو تیزی سے بدل دیا ہے۔

3)  ملیریا کی مو ¿ثر ادویات کے خلاف مچھروں کی قوت مدافعت میں اضافہ جس کے باعث مچھر پہلے سے زیادہ طاقتور ہوگئے ہیں۔

4)  ایک جگہ سے دوسری جگہ انسانوں کی منتقلی خصوصاً ملیریا کی شدت رکھنے والے علاقوں میں محفوظ علاقوں کے لوگوں کی آمدورفت کے باعث ان صحت مند افراد میں ملیریا کی منتقلی یا ملیریازدہ لوگوں کی محفوظ علاقوں میں نقل مکانی کے باعث ان علاقوں میں ملیریا کا پھیلاﺅ۔

5)  مختلف ذرائع سے مچھروں کی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقلی۔

 ہوائی جہاز یا بحری جہازوں کے ذریعے اور سامان کے ساتھ مچھروں کے ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچنے کے کئی واقعات کا کھوج لگایا جاچکا ہے۔

 یہ فیصلہ مچھروں کی قسم کے لحاظ سے کیا جاتا ہے۔

 جو کسی ایسے علاقے میں نظر آئے جہاں ملیریا پہلے اپنا کوئی وجود نہ رکھتا ہو۔

Share this post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to Posts