🚀 Want a superfast website? Hostinger is your launchpad! 🚀

ڈینگی بخار (Dengue Fever)

Back to Posts

ڈینگی بخار (Dengue Fever)

ڈینگی وائرس کا مرض ڈینگی وائرس (DEN) سے پھیلتا ہے اس وائرس کا تعلق Flavivirids فیملی سے ہے۔

تاریخ


 1969ءتک تو سائنس دان اس بیماری کا ایک بھی وائرس لیبارٹری میں لانے میں ناکام رہے
 اور یہ ایک پراسرار بیماری سمجھی جاتی رہی جو چند ہی دنوں میں جسم کے تمام نظاموں کو متاثر کردیتی تھی۔
 مرض کی وجوہ اورعلاج کے ضمن میں پیش رفت نہ ہونے کی وجہ یہ بھی تھی کہ مریض کی بیماری اور موت کے درمیان بہت تھوڑا وقفہ تھا۔
 اب تک کی تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ اس قسم کے وائرس پھیلانے والے مچھر لاطینی امریکہ سے مصر منتقل ہوئے اورپہلی بار 1950ءمیں ایشیائی ممالک فلپائن اور تھائی لینڈ میں پائے گئے۔
عالمی ادارہ صحت (WHO) کی حالیہ رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال دس کروڑ افراد ڈینگی وائرس سے متاثر ہوتے ہیں جبکہ دنیا بھر میں سالانہ 15 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوجاتے ہیں۔ 
ڈینگی وائرس ایک خطرناک وائرس ہے۔
 گزشتہ دہائیوں میں اس کی وباءمیں بہت اضافہ ہوا ہے۔
 سو سے زائد ممالک میں یہ وائرس موجود ہے جنوب مشرقی ایشیاءاور مغربی پیسفک(Pacific) کے علاقے سب سے زیادہ متاثر ہیں۔
 1970ءسے قبل صرف (9) ممالک اس وباءکی مد میں آئے یہ تعداد 1995ءمیں چار گنا بڑھ گئی۔
 2500 ملین افراد، دنیا کی ڈھائی فیصد آبادی کو اب بھی ڈینگی وائرس کا خطرہ لاحق ہے۔ WHO کے اندازے کے مطابق دنیا بھر میں پچاس ملین افراد ہر سال ڈینگی وائرس سے متاثر ہوسکتے ہیں۔
 تیزی سے بڑھتی ہوئی شہری آبادی اس مچھر کی بڑھتی ہوئی تعداد، اس وائرس کے پھیلاﺅ کی ذمہ دار ہے۔
ڈینگی وائرس (Dengue Virus) اور ڈینگی ہیمریجک فیور DHF منظر عام پر آنے والی کوئی نئی بیماری نہیں ہے یہ کانگو وائرس ہی جیسا ایک دوسرا وائرس ہے جو کانگو وائرس سے بھی زیادہ خطرناک ہے © © © © ©ڈینگی وائرس پاکستان میں 1985ءمیں پہلی بار رپورٹ ہوا تھا۔
 جب کہ کراچی میں 1994ءمیں ڈینگی فیور سے پانچ افراد لقمہ اجل بنے۔ 1995ءمیں صوبہ بلوچستان میں 57 سے 76 مل ورکر اس کا شکار ہوئے اور 2003ءمیں اس وائرس میں شدت پیدا ہوئی جبکہ اس برس ڈینگی نے ملک بھر میں وبائی صورت اختیار کرلی ۔
خیال کیا جاتا ہے کہ ڈینگی وائرس ان لوگوں کی وجہ سے پاکستان میں آیا جو تھائی لینڈ اورملائیشیا جیسے علاقوں میں اکثر آتے جاتے رہے۔
 یہ لوگ وائرس یہاں لائے اور یہاں مچھر کے کاٹنے سے یہ وائرس بہت تیزی سے پھیلتا گیا۔
ماہرین طب کے مطابق وائرل ہیمریجک فیور (VHF) کی دنیا میں کئی دیگر اقسام بھی ہیں تاہم پاکستان میں ابھی تک صرف ڈینگی اور کریمین کانگو وائرس کا ہی سراغ ملا ہے۔
ڈینگی وائرس کی وباءکے دور میں چالیس سے پچاس فیصد آبادی یا اسّی سے نوّے فیصد تک متاثر ہوسکتی ہے ایک اندازے کے مطابق ہر سال پانچ لاکھ ڈینگی ہیمریجک فیور کے مریض ہسپتال میں داخل ہوتے ہیں۔
 ان میں کثیر تعداد بچوںکی ہے۔ 
کم از کم ڈھائی فیصد مریض فوت ہوجاتے ہیں جبکہ مرنے والوں کی تعداد اس سے بھی زیادہ ہوسکتی ہے۔
 صحیح علاج کے بغیر مرنے والوں کی تعداد بڑھ کر بیس فیصد تک پہنچ سکتی ہے۔ 
نوٹ: جدید اور فوری علاج سے یہ تعداد ایک فیصد سے بھی کم کی جاسکتی ہے۔
انسانوں میں یہ مرض، مادہ مچھر کی قسم ایڈیس ایجیپٹی (Aedes aegypti) اور ایڈیس ایلبوپیکٹس(Aedes Albopictus) 
کے کاٹنے سے پھیلتا ہے۔


ڈینگی فیور کا مچھر


ڈینگی بخار ایک خاص قسم کے سیاہ مچھر کے ذریعے پھیلتا ہے
 جس کے جسم پر سفید دھاریاں نمایاں ہوتی ہے
 جو بہت قریب سے دیکھنے میں نظر آتی ہیں۔
 یہ مچھر ڈینگی کا سبب بننے والا وائرس ایک فرد سے دوسرے میں منتقل کرتا ہے۔
 اسے زرد بخار (Yellow Fever)کا مچھر بھی کہا جاتا ہے کہ یہ زردبخار بھی پھیلاتا ہے۔
 دنیا بھر میں پائی جانے والی مچھروں کی 3500 اقسام میں خطرناک مچھروں کی تین اقسام ہیں،
 ایڈس ایجپٹی (Aedes Aegypti) اور اینوفلز (Anopheles) اقسام کے مچھر ڈینگی وائرس ہیمریجک فیور، زرد بخار اور ملیریا جیسے وبائی امراض کے وائرس پھیلاتے ہیں۔
ہر قسم کا مچھر ڈینگی فیور نہیں پھیلاسکتا۔
 یہ مادہ مچھر کی قسم (Albopictus) اور (Aedes aegypti) کی ہی وجہ سے پھیلتا ہے اس وائرس سے متاثر مادہ مچھر انڈوں کے ذریعے، وائرس اپنی اگلی نسل میں منتقل کرسکتی ہیں۔
 اس طرح یہ وائرس کافی عرصہ تک موجود رہتا ہے اور اسی وجہ سے وائرس کی انسانوں میں وبائی صورت اختیار کرنے کو بھی جھٹلایا نہیں جاسکتا ہے۔


مچھروں کی افزائش

ڈینگی بخار عام طورپر گرم، برسات کے سیزن میںپھیلتا ہے۔
 یہ شہری علاقوں میں عام ہوسکتا ہے جہاں اسے افزائش کے لئے پانی کے ذخائر اور نکاسی آب کا ناقص نظام بہ آسانی دستیاب ہوتے ہیں۔
ڈینگی پھیلانے والے مچھر صاف اورٹھہرے ہوئے پانی میں افزائش نسل کرتےہیں مگر صاف پانی دستیاب نہ ہو تو یہ گندے پانی میں بھی افزائش کرلیتے ہیں گو کہ نمو کا تناسب کم ہوتا ہے۔
 ملیریا کا ذریعہ بننے والے مچھروں کی بہ نسبت ڈینگی پھیلانے والے مچھر عام طور پر دن میں کاٹتے ہیں لہٰذا اس صورت مچھردانی اس صورت کے کام نہیں آتی ہے۔
 ڈینگی مچھر عام طور پر سایہ دار یا تاریک جگہوں میں رہتے ہیں۔
 ڈینگی سے بچاﺅ کے لئے بھی مچھروں کو کاٹنے سے بچنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
 ضروری ہے کہ اس کے لئے اجتماعی کوششیں بھی کی جائیں۔
ڈینگی وائرس کے خطرناک مچھر صاف پانی، پانی اسٹور کرنے والے برتن اوورہیڈ یا کھلے ٹینک، ٹائرز ، گملوں، کین، آئل ڈرم، آٹوموبائلز، کنٹینرز، پلاسٹک ٹینک اور دوسرا کوئی بھی سامان جس میں صاف پانی جمع ہوجائے، نکاسی آب، بارش سے جمع پانی کے تالاب اورجھیل وغیرہ میں پیدا ہوتے ہیں۔ یہ مچھر ہوائی جہاز، بحری جہاز اور ٹرین سے بھی ایک سے دوسری جگہ منتقل ہوتے ہیں۔
عالمی طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاک بھارت حکومتوں نے اب تک صورتحال پر سنجیدگی اختیار نہیں کی ہے اور نہ ہی مچھروں پر کنٹرول کے لئے کوئی مربوط لائحہ عمل اختیار کیا ہے۔
 واضح رہے کہ زرد بخار بھی ان ہی مچھروں سے پھیلتا ہے۔
 بھارت میں بھی ڈینگی وائرس کی وبا میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ 
بھارتی وزارتِ صحت کے مطابق گزشتہ برسوں میں ڈینگی وائرس سے دہلی، کیرالہ، راجھستان، اترپردیش، مغربی بنگال،گجرات، پنجاب تامل ناڈو، کرناٹک، ہریانہ اورآندھراپردیش کی ریاستیں شدید متاثر ہوئی ہیں۔

ڈینگی مچھروں کی افزائش کی روک تھام 

یہ مچھر صاف پانی کا مچھر ہے، گندے اور رُکے ہوئے پانی پر مچھر مار اسپرے سے مچھر (Anopheles) جو کہ ملیریا پھیلاتا ہے،
 مارا جاسکتا ہے مگر ڈینگی فیور پھیلانے والے مچھر پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوگا۔
 اس لئے ڈینگی فیور کی وباءکو روکنے کے لئے یہی ضروری ہے کہ ایڈیس ایجیپٹی (Aedes Aegypti) 
کی آماجگاہ پر اسپرے کیا جائے۔

ڈینگی فیور کیا ہے؟


ڈینگی فیور کو ہڈی توڑ بخار بھی کہا جاتا ہے۔
 اس میں بخار کے ساتھ فلو کی طرح کی بیماری ہوتی ہے۔ ہڈی اور جوڑوں میں درد ہوتا ہے۔ متلی اوراُلٹی آتی ہے۔ 
ڈینگی فیور درمیانے درجہ کی بیماری ہے مگر ڈینگی ہیمریجک انتہائی خطرناک ہے جس میں ہسپتال میں داخلہ ضروری ہے۔
 اس سے متاثرہ بچوں کی کثیر تعداد جان سے ہاتھ دھوبیٹھتی ہے۔ 

ڈینگی ہمریجک فیور کیا ہے؟


ڈینگی ہمریجک فیور میں، بخار اورجسم میں درد کے ساتھ ساتھ خون کی شریانوں سے خون خارج ہوتا ہے۔
 جس کی وجہ جسم میں خون جمنے کی صلاحیت متاثر ہونا ہے۔
 پلیٹلٹس کی تعداد کم ہوجاتی ہے اور جسم کے مختلف حصوں سے خون خارج ہونا شروع ہوجاتا ہے۔
اس وائرس کی ملی جلی چار اقسام ہیں جو ڈینگی فیور کا سبب بنتی ہیں ایک طرح کے وائرس سے صحت یابی کے بعد مریضوں کی قوت مدافعت پیدا ہوجاتی ہے۔ مگر باقی تین اقسام کے لئے قوت مدافعت جزوی ہوجاتی ہے
 بار بار ڈینگی انفیکشن کی صورت میں مرض بگڑ کر ڈینگی ہیمریجک فیور کی صورت اختیار کرسکتا ہے۔
ڈینگی وائرس میں چار طرح کے ڈینگی وائرس شامل ہوتے ہیں جو آپس میں ملتے جلتے ہیں اور ان کی وجہ سے Den V-1، Den V-2، Den V-3، Den V-4 سے ڈینگی بخار ہوتا ہے۔

 کیریئر


وائرس انسانی جسم میں پہنچنے کے بعد عموماً مرض کی علامات پانچ سے دس دن میں ظاہر ہوجاتی ہیں 
اور بخارایک سے دو ہفتے تک رہتا ہے
 لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ وائرس جسم کے اندر مہینوں نہیں برسوں بھی موجود رہے
 اور پھر اچانک ہی اس کی علامات سامنے آئیں۔
ایسے افراد جن میں کوئی وائرس علامات ظاہر ہوئے بغیر موجود ہو، کیریئر کہلاتے ہیں۔
 دستیاب معلومات کے مطابق ”کیریئر“ دوسرے انسانوں کے لے نامعلوم خطرہ ہوتے ہیں۔
یہ بخار انسان سے انسان کو کبھی منتقل نہیں ہوتا (یہ چھوت کی بیماری نہیں)۔
l ڈینگی بخار کا علاج بروقت کیا جائے تو جان لیوا نہیں۔
ڈینگی وائرس انسانی جسم میں داخل ہونے کے بعد ڈینگی بخار اورڈینگی ہیمریجک بخار کا سبب بنتا ہے۔
ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ ڈینگی وائرس سے متاثر شخص میں مچھر کے ذریعے دوبارہ ڈینگی وائرس داخل ہوجائے تو وہ براہ راست ہیمریجک فیور کا شکار ہوسکتا ہے۔

ڈینگی فیور کے مرض کی منتقلی

ڈینگی وائرس سے متاثر مچھر کے کاٹنے کے بعد یہ وائرس انسان کے جسم میں آٹھ دس دن تک رہتا ہے۔
 علامات ظاہر ہونے سے لے کربیماری ختم ہونے کے پانچ دن تک رہتا ہے۔
 یہ دورانیہ مرض یعنی انفیکشن کے پھیلاﺅ کے لئے بہت اہم ہوتا ہے۔ 
اس دوران اگر مریض کو مچھر کے کاٹنے سے نہ بچایا جائے تو پھر یہ اور لوگوں میں منتقل ہوتا چلا جاتا ہے۔
 یہی وجہ ہے کہ مریضوں کی تعداد بڑھتی جاتی ہے اور جس علاقے میں یہ وائرس ایک دفعہ داخل ہوجائے یہ بہت جلد ہی وباءکی صورت اختیارکرلیتا ہے۔

Share this post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to Posts