Dengue and health workers

Back to Posts

Dengue and health workers

ڈینگی اور صحت کارکن


اس برس ڈینگی نے وبائی صورت اختیار کرلی۔
 یہ وبا ملک کے ہر حصہ میں موجود ہے، ڈینگی میں مبتلا افراد کی تعداد ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھ رہی ہے جبکہ اس باعث اموات کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ 

ڈینگی سے بچاﺅ کے لئے کروڑوں روپے کے فنڈز مختص کیے گئے ہیں جبکہ ڈینگی سے تحفظ کے لئے ضروری مچھر مار اسپرے کی خبریں بھی منظر عام پر آرہی ہیں۔ 

اس حوالے سے مختلف علاقوں میں مچھر مار مہم کے افتتاح کی خبریں بھی سامنے آئیں لیکن بیشتر ذرائع کے مطابق اس پیمانے پر اسپرے ہوتا نظر نہیں آیا جو ڈینگی کے وبائی صورت اختیار کرنے کے بعد ہونا چاہیے۔
عالمی اداروں کی رپورٹس کے مطابق ہر سال لاکھوں افراد ڈینگی وائرس کا شکار ہوتے ہیں تاہم اس باعث اموات کی تعداد 25 ہزار بتائی جاتی ہے۔ 

ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر احتیاط سے کام لیا جائے تو ڈینگی کے خطرے سے بچا جاسکتا ہے تاہم بچاﺅ کے لئے سرکاری اورنجی ہر دو سطحوں پر اقدام ضروری ہیں۔

 ماہرین کا کہنا ہے کہ احتیاط ہی اس مسئلے کا بہترین حل ہے مگر اس کے لئے بااختیار حلقوں کا انسان دوست اور ہمدرد ہونا ضروری ہے۔

 ڈینگی کے پھیلاﺅ کے بعد فنڈز کا ریلیز کیا جانا قابل ستائش ہے لیکن اس سے منصوبہ بندی اور اس پر عمل کے فقدان کا اظہار بھی ہوتا ہے جو انتظامی شعبے میں تقریباً ہر سطح پر پایا جاتا ہے۔

یہ کہنا غلط نہیں کہ ڈینگی کے وبائی صورت اختیار کرنے کے بعد آئندہ کے لئے خطرات بڑھ گئے ہیں، معاملے کی ایک صورت یہ ہے کہ جو اب تک ڈینگی وائرس کا شکار ہوچکے ہیں ان کے لئے دوبارہ ڈینگی وائرس کا نشانہ بننا زیادہ خطرناک ہوسکتا ہے اور یہ کہ اب بھی اس سے بچاﺅ کے لئے اقدمات یقینی نہ بنائے گئے تو آئندہ صورتحال مزید تشویشناک اور قابو سے باہر ہوسکتی ہے۔

ایک ایسے ملک میں جہاں آبادی کا بڑا حصہ صحت کے حوالے سے شعور سے محروم ہوں، جہاں طبی مراکز کم اور طبی سہولیات اس سے بھی کم ہوں، عام لوگوں کو لاحق ڈینگی جیسے خطرات سے نمٹنے کے لئے بڑے پیمانے پر اقدام ضروری ہیں۔

اور یہ بھی ضروری ہے کہ بچاﺅ کے ان منصوبوں میں عوام کو بھی شریک کیا جائے۔

 اس اعتبار سے دیکھا جائے تو معاشرے کے لئے ”صحت کارکنوں“ کی اہمیت واضح ہوتی ہے جو عوام سے ہی تعلق رکھتے ہیں اور اپنی تربیت، تجربے اور علم کی روشنی میں عوام کو ان احتیاطی اقدامات کے لئے مائل کرسکتے ہیں جو نہ صرف ڈینگی بلکہ صحت و صفائی کے فقدان کے باعث ہونے والے عارضوں سے بھی بچاسکتے ہیں۔

 بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں صحت کارکن وہ اہمیت اور مقام نہیں رکھتے ہیں جو ایک صحت مند معاشرے کی پہچان ہوتی ہے۔

بنیادی سطح پر صحت کارکن قومی صحت کے لئے اہم خدمات انجام دے سکتے ہیں اس مقصد کے لئے نظام صحت میں صحت کارکنوں کے لئے خاطر خواہ گنجائش ضروری ہے۔
 
صحت کارکنوں کو اپنی خدمات کے عوض پرکشش مراعات اور معاوضہ ملنا چاہیے لیکن صورتحال یہ ہے کہ یہ سرکاری طور پر مقرر شدہ کم تر معاوضہ بھی نہیں پاتے ہیں۔

 صحتکارکنوں کے لئے کیا گنجائش ہے؟ کس معیار کے لوگ صحت کارکن بن سکتے ہیں، ان کے لئے بنیادی تربیت کا کیا سلسلہ ہے۔

 اس بارے میں کوئی رہنمائی نہیں ملتی ہے۔

 کچھ این جی اوز اپنے مقاصد اور اہداف کے تحت صحت کارکنوں کے نام پر بامعاوضہ افرادی قوت حاصل ضروری کرتی ہیں لیکن ان کا دائرہ عمل محدود اور مقاصد متعین ہیں۔

ہمارے دیہی اور پسماندہ علاقے ہی نہیں بلکہ شہر کے نواحی اور کچی آبادیاں بھی صحت کی سہولتوں سے محروم، صحت و صفائی کے سنگین مسائل سے دوچار ہیں۔

 قومی سطح پر عوامی آگہی کا نہ تو کوئی اہتمام ہے اور نہ ہی ایمرجنسی صورتوں میں کوئی خاص سرگرمی دیکھنے میں آتی ہے۔ 

مایوس کن حالات میں بھی قوم کا اجتماعی عزم اور عمل صورتحال کو بدل سکتا ہے۔

 قومی صحت کے لحاظ سے ہم مایوس کن پس منظر رکھتے ہیں لیکن اس سے بھی زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ حالات کے سدھار کے لئے ہم ایسی کوئی ٹھوس اور مستقل منصوبہ بندی بھی نہیں جو سیاسی اتار چڑھاﺅ، حکومتوں کی تبدیلی اور جانبداری سے متاثر ہوئے بغیر روبہ عمل رہ سکے۔ 

اس میں شبہ نہیں ہے کہ صحت کارکن بنیادی سطح پر عوام کے تعاون سے حالات کی تبدیلی میںمعاون ثابت ہوسکتے ہیں۔

 یہ صحت کارکن معاشرے کا قیمتی اثاثہ بن سکتے ہیں کہ ان کے ذریعے عوام ان احتیاطی تدابیر کو اپناسکتے ہیں جو انہیں بہت سی پر خطر بیماریوں اور معذوریوں سے محفوظ بنا سکتی ہیں۔ 

یہ اسی صورت ممکن ہے جب ہر علاقے میں بااختیار اور ضروری اداروں سے موثر رابطہ رکھنے والے صحت کارکن موجود ہوں۔

 یہ مستقل بنیادوں پرصحت کی مختلف مہمات میں معاونت کرتے رہیں۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ عدم ربط اور عدم تسلسل کے باعث خطیر سرمائے سے چلنے والی ہر مہم اپنے آخری مرحلے میں غیر موثر اور غیر مفید ثابت ہوتی ہے۔ 

صحت کے لئے حفظان صحت کے اصولوں پر عمل ضروری ہے اور اس عمل میں رکاوٹ یا جمود خطرات کی شدت بڑھا سکتا ہے۔

 صحت کارکنوں کا فعال وجود قومی صحت کو مستحکم اور ممکن بناسکتا ہے فی الوقت ہمیں اس کی اشد ضرورت ہے-

Share this post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to Posts