🚀 Want a superfast website? Hostinger is your launchpad! 🚀

Protect against Dengue fever and take precautions

Back to Posts

Protect against Dengue fever and take precautions

ڈینگی بخار سے بچاﺅ اور احتیاطی تدابیر


ڈینگی بخار نیا نہیں ہے تاہم گزرے 25 برسوں سے اس نے دنیا کے مختلف حصوں میں ڈیرہ جمارکھا ہے اوریہ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے والے انسانوں کے ساتھ دور دراز کے علاقوں میں بھی پہنچ رہا ہے۔

 یہ حقیقت بھی ہمارے سامنے ہے کہ ڈینگی سے شدید طور پر متاثر مختلف علاقوں میں عوام، حکومت غیر سرکاری اورسماجی اداروں نے باہمی تعاون سے اس وباءپر قابوپالیا ہے۔
ڈینگی سے بچاﺅ کے لئے عوام میں شعور کے ساتھ اجتماعی مفاد میں کام کرنے کا جذبہ ضروری ہے۔
 سماجی ادارے اور کارکن اس مقصد کے لئے مختلف انداز اپناتے ہیں۔
 سماجی اجتماعات، پوسٹر، نغمے، اسٹریٹ پلے، ڈینگی کنٹرول پروگرام کا حصہ ہوتے ہیں۔ اس طرح لوگوں میں مل جل کر کام کرنے کا جذبہ پروان چڑھتا ہے اور سب کے لئے محفوظ ماحول یقینی بن جاتا ہے۔
باہمی تعاون سے مچھروں پر کنٹرول
مچھروں کا مکمل خاتمہ ہر دور کے انسانوںکا خواب رہا لیکن اب تک یہ ممکن نہیں ہوسکا۔ یہ ضرور ہے کہ ہر علاقے کے لوگ اجتماعی کوششوں سے مچھروں کی افزائش پرانتہائی حد تک کنٹرول کرلیں۔
 مچھر ٹھہرے ہوئے پانی میںانڈے دیتے ہیں جہاں یہ سات دن رہتے ہیں۔
 اگر کسی جگہ پانی کو رُکا ہوا نہ رہنے دیا جائے تو انڈوں سے لاروا بننے کا عمل مکمل نہیں ہوگا اورمچھروں کی افزائش میں کمی آئے گی۔
مچھروں کی نسل بڑھنے سے روکنے کے لئے ضروری ہے کہ 
جہاں بھی پانی جمع ہونے کا امکان ہو ایسی چیزیں باقی نہ رکھی جائیں مثلاً پرانے ٹائر، گلدان، خالی ڈرم، گڑھے۔
 بغیر ڈھکے پانی کے برتن یا کوئی بھی ایسی جگہ جہاں پانی جمع ہونے کا امکان ہو۔
اِردگرد کی زمین کو ہموار رکھا جائے تاکہ پانی کسی جگہ ٹھہر نہ سکے۔
پانی کے استعمال میں اس کے اخراج کے لئے بہاﺅ کا مناسب انتظام کیا جائے۔
ٹھہرے ہوئے پانی کے ضروری ذخائر میں مچھروں کوکھانے والی مچھلیاں پالی جائیں۔
 یہ مخصوص قسم کی مچھلیاںمختلف علاقوں میں مختلف ناموں سے پہچانی جاتی ہیں۔
شجرکاری بھی مچھروں پر قابو میں کام آتی ہیں۔ درختوں پر بسیرا کرنے والے پرندے اس میں مدد کرتے ہیں جبکہ بعض اقسام کے درخت مثلاً نیم کا درخت مچھروں کے لئے سخت ناپسندیدہ ہے۔
 نیم کے پتے بھی مچھروں کو بھگانے کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں۔

کیمیائی مرکبات کا استعمال

مچھروں کی افزائش کے زمانے میں انہیں کیمیائی مادوں سے بڑے پیمانے پر ہلاککیا جاسکتا ہے۔ 
ماضی میں اس مقصد کے لئے ڈی ڈی ٹی استعمال کی جاتی تھی لیکن یہ ایک ایسا زہر ہے جو انسانوں اورجانوروں کے لئے سخت نقصان دہ ہے۔
 یہ کینسر، پیدائشی نقائص کا سبب بن سکتا ہے جبکہ ڈی ڈی ٹی کے اثرات دور تک پھیلتے ہیں اور یہ فضاءمیں برسوں برقرار رہتے ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ زیادہ خطرناک ہوجاتے ہیں۔
 یہی وجہ ہے کہ اب نسبتاً محفوظ حشرات کش ادویہ پر زور دیا جاتا ہے تاکہ زمین، فصلوں، انسانوں اورجانوروں کو کم سے کم نقصان پہنچے اور مچھروں کا خاتمہ بھی ہو۔ 
کیمیائی مادے جب بھی استعمال کئے جائیں احتیاط سے کام لیا جائے، انہیں براہ راست جسم پر نہ پڑنے دیں۔
 ان سے آلودہ فضاءمیں رہنے سے گریز کیا جائے۔ اس ضمن میں ماہرین کی ہدایات پر سختی سے عمل کیا جائے۔
 یاد رکھیں کہ تمام حشرات کش ادویات ”زہر“ ہیں لہٰذا ان کا استعمال محدود پیمانے پر مگر موثر انداز سے اوراحتیاط کے ساتھ کیا جائے۔

صفائی ستھرائی

طبی ماہرین نے ڈینگی وائرس سے بچاﺅ کا واحد طریقہ صفائی ستھرائی بتایا ہے اور عوام کو تلقین کی ہے کہ اپنے گھروںکے علاوہ گلی محلوں کی بھی صفائی رکھیں۔

 ماہرین کے مطابق وی ایچ ایف کے لئے اینٹی وائرل دوا نہیں اور نہ ہی اس سے تحفظ کے لئے کوئی ویکسین موجود ہے۔

 لہٰذا اس سے بچنے کے لئے احتیاط بہت ضروری ہے۔

مچھروں سے بچاﺅ کے لئے کھڑکیوں اور دروازوں پر جالیاں لگوائیں۔

ایک آسان ترکیب مچھر کے کاٹنے سے بچنے کی یہ ہے کہ جسم کے کھلے ہوئے حصوں پر کڑوے تیل کے چند قطرے لگائے جائیں۔

 مچھر ان جگہوں پر نہیں کاٹتا، مچھروں کو ختم کرنے کے لئے اسپرے سے خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوتا اس لئے کہ ڈینگی وائرس کے مچھر کی افزائش ایسی جگہ ہوتی ہے جہاں صاف پانی ہو اور عام طور پر یہ مچھر کمروں میں اور عمارتوں میں پائے جاتے ہیں جہاں اسپرے کے اثرات نہیں پہنچ سکتے۔

مچھردانی کا استعمال کریں۔


 غروب اور طلوع آفتاب کے اوقات میں جسم کے کھلے حصوں کو اچھی طرح ڈھانپ کر رکھیں اور کھلے حصوں پر مچھر بھگاﺅ لوشن لگائیں مچھر بھگانے کے لئے کوائل اورمیٹ کا استعمال بھی مفید ہے۔

اسپتال میں کسی ایسے مریض کی موجودگی کی صورت میں ڈاکٹر اورتمام میڈیکل عملہ کو دستانے اورماسک کا استعمال کرنا چاہئیے مریضوں کو خون یا کسی اور قسم کے اخراج سے جسمانی رابطے سے بچا جاسکتا ہے اور اینٹی سیپٹک لوشن استعمال کیا جاسکتا ہے۔

متاثرہ مریض کی جراحی کے دوران ہاتھ میںخون لگ جانے کی صورت میں فوراً سیرولوجیکل خون کا ٹیسٹ(Serological test for Virus) کروا کر اس امکان کو رد کیا جاسکتا ہے کہ وائرس جسم میں داخل ہوا کہ نہیں۔

٭ علاج کے لئے مریض کو سب سے پہلے آئیسولیشن وارڈ میں منتقل کردیا جاتا ہے۔
 آئیسولیشن وارڈ میں مکمل صفائی اور چھڑاﺅ کا اہتمام باقی وارڈ سے کہیں زیادہ ہوتا ہے۔

Share this post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to Posts